غزہ: فلسطینی کنبہ کی درد بھری داستان، ایک سال میں 14 مرتبہ ہونا پڑا نقل مکانی کو مجبور

مظلوم فلسطینی خاتون نے کہا کہ ''نقل مکانی کے دوران بہت ظلم ہوتا ہے، یہ بہت مشکل بھرا ہے، ہمیں قرض لینا پڑتا ہے تاکہ ہم ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جا سکیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>فلسطینی پناہ گزیں (فائل)، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

فلسطینی پناہ گزیں (فائل)، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

گزشتہ ایک سال سے مسلسل فلسطین پر اسرائیل کے شدید حملے جاری ہیں جس میں ہزاروں بے قصور شہریوں کی موت ہوئی ہے۔ اسرائیل کے حملے میں مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی بھی کافی تعداد ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ میں قریب 400000 فلسطینی پھنسے ہوئے ہیں اور اسرائیلی فوج کے نکاسی حکم جاری ہونے کے باوجود کسی کو بھی علاقے کو چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

اس شدید جنگ کے درمیان ایک ایسی فلسطینی خاتون اور اس کے کنبہ کی دردناک کہانی سامنے آئی ہے جسے گزشتہ ایک سال میں 14 مرتبہ منتقلی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ متاثرہ خاتون صبرین نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ سے پہلے میں ایک خوبصورت زندگی گزار رہی تھی۔ ایک ایسی زندگی جس میں عزت تھی، اللہ کے فضل و کرم سے ہم خوشحال تھے، میرے شوہر ایک ماہی گیر تھے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے تھا، میری پوتی خوش تھی، وہ اپنے اسکول جاتی تھی لیکن جنگ نے سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا۔


صبرین نے بتایا کہ اسرائیل کے پہلے حملے میں غزہ شہر میں بنا اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پہلے انہوں نے اپنے کنبہ کے ساتھ شمالی غزہ میں پناہ لی لیکن آگے جنوب کی طرف جانے کے بعد انہیں زندہ رہنے کی کوشش میں بار بار جنوب اور پھر سنٹرل غزہ کو پار کرنا پڑا۔

صبرین نے آگے کہا "میں آپ کو نقل مکانی کے بارے میں بتاتی ہوں۔ آپ پر ظلم کیا جاتا ہے۔ یہ بہت مہنگا ہے۔ ہم لوگوں سے قرض لیتے ہیں تاکہ ہم ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جا سکیں۔ منتقلی کی شروعات سے لے کر اب تک چکانے کے لیے بہت سارے قرض ہیں اور میرے نام پر بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ مجھے اپنی بیٹی اور ناتن کا گولڈ فروخت کرنا پڑ رہا ہے، اب جو بچا ہے وہ ہے میری ناتن کا کنگن، اس کی انگوٹھی اور جھمکے"۔

صبرین نے مزید بتایا کہ جب جنگ بندی کی خبر آئی تو انہوں نے گھر جانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر شمال کی طرف لوٹنے کی کوشش کی۔ میں نے بچے اور لڑکیوں، اپنی ماں اور بیٹی، بہن اور اپنی بھتیجی کو لیا اور ہم چل پڑے۔ ہم فوج کی چوکیوں کے پاس دو سڑکوں پر پہنچے، میں نے کوئی فوجی نہیں دیکھا لیکن پھر فوجی آ گئے جو تعداد میں تقریباً 30 تھے۔ وہ ہمیں رکنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ پہلے کیوں نہیں آئے، ہم سے پہلے کچھ لوگ اندر آ گئے۔ میں دو گھنٹے بعد واپس لوٹی۔ پھر اسنائپرس نے مجھ پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔آنکھوں کے سامنے گولہ بارود، ہم اپنے چھوٹے بچوں، بچیوں کے لیے ڈرے ہوئے تھے لیکن میں اپنے چاروں طرف گولی باری کے باوجود چل رہی تھی کہ اچانک ایک نوجوان آیا اور وہ مجھے کھینچ کر لے گیا۔


دیگر لوگوں کی طرح صبرین نے بھی غزہ میں اسرائیل کے قتل عام کی وجہ سے اپنے کئی رشتہ داروں کو کھویا ہے اور بار بار نقل مکانی کی وجہ سے انہیں شوک منانے کا وقت بھی صحیح سے نہیں مل سکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔