یورپی یونین کے نمائندے کو فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں مزید کشیدگی خدشہ

ٹومس نکلاسن نے خدشہ ظاہر کیا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوگا بلکہ دیگر 'عناصر' کی شمولیت کی وجہ سے تنازع مزید کشیدہ اور پیچیدہ ہوجائے گا۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اسلام آباد: افغانستان سے امریکی افوج سمیت نیٹو افواج کے انخلاء کے عمل اور اس دوران طالبان اور افغان فوج کے درمیان زبردست جھڑپ کے دوران افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ٹومس نِکلاسَن نے افغانستان میں کشیدگی میں اضافے کا انتباہ دیتے ہوئے فریقین کے درمیان دوحہ مذاکرات میں جلد پیشرفت کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے دورہ اسلام آباد کے اختتام پر کہا کہ ' ہم آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں میں بدقسمتی سے مزید کشیدگی میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں'۔

ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ 'طالبان نے دوحہ مذاکرات کے دوران ایسی کوئی تجویز پیش نہیں کی کہ وہ مستقبل میں کیسی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں یا روڈ میپ یا ان موضوعات کی فہرست فراہم نہیں کی جن پر وہ بات کرنا چاہتے ہیں'۔


دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحا میں مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور گزشتہ سال ستمبر میں مذاکرات کے آغاز کے بعد سے دونوں فریقین نے مذاکرات میں معمولی پیشرفت کی ہے۔ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا رواں سال 11 ستمبر تک مکمل کرنے کے اعلان کے بعد سے یہ مذاکرات غیر یقینی کا شکار ہوگئے تھے۔

اپنے پیشرو ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح، جنہوں نے افغان حکومت کو فروری 2020 میں طالبان سے ہونے والے معاہدے سے دور رکھا تھا، یہ مانا جا رہا ہے کہ جو بائیڈن کے فیصلے نے طالبان کے لیے مذاکرات کی وجہ ختم کردی ہے اور گروپ خود کو فتحیاب سمجھ رہا ہے۔


ٹومس نکلاسن نے خدشہ ظاہر کیا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوگا کیونکہ دونوں فریقین جنگ کے میدان میں اپنی طاقت آزما رہے ہیں، بلکہ دیگر 'عناصر' کی شمولیت کی وجہ سے تنازع مزید کشیدہ اور پیچیدہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 'اس سے نہ صرف میدان میں بلکہ مذاکرات کے آغاز میں بھی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگا'۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے دونوں فریقین سے بات چیت میں فوری طور پر آگے بڑھنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ 'ہمیں عمل سے حقیقت کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن عمل کے حوالے سے خلوص ظاہر کریں۔ ٹومس نکلاسن نے یاد دہانی کرائی کہ طالبان نے کہا تھا کہ وہ طاقت کے ذریعے کابل حاصل نہیں کریں گے، وہ مذاکرات کے ذریعے تصفیے کے لیے پرعزم ہیں اور عسکری آپشن پر یقین نہیں رکھتے۔


انہوں نے کہا کہ طالبان کو چاہیے کہ وہ عملی قدم سے بھی یہ ظاہر کریں، اس حوالے سے پہلا قدم کشیدگی میں اضافے کے بجائے اس میں کمی ہوگی، وہ یہ اشارہ دیں گے کہ وہ یورپی یونین اور دیگر کے ساتھ تعاون میں حقیقی معنوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے امن عمل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوال پرکہا کہ انہوں نے نوٹ کیا کہ پاکستانی رہنماؤں کو کم ہوتے وقت کا پوری طرح ادراک ہے۔انہوں نے کہا کہ 'پاکستان نے بہت کچھ کیا ہے لیکن اس نے جو کچھ کیا وہ کافی ہے یا نہیں اس کا جواب تاریخ دان دیں گے'۔ انہوں نے کہا کہ 'آخر میں نتیجہ معنی رکھے گا، اب تک ہم طالبان کی مذاکرات کے لیے آگے بڑھنے کی طرف بہت کم پیشرفت دیکھ رہے ہیں'۔

طالبان کے ترجمان کے مطابق منگل کو فریقین نے مذاکرات کے دوران امن کی بحالی اور بات چیت کے ادوار سے متعلق بات کی۔ درین اثناء پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا کہ اگلے چند مہینے افغانستان کے لیے نہایت اہم ہیں، جن میں معاملات سلجھ بھی سکتے ہیں اور ان میں بگڑ بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے افغان قیادت کو یاد دہانی کرائی کہ اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس صورت حال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالیں۔


شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان میں حالات نوے کی دہائی کی طرف پلٹتے ہیں یا خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو یہ افغانوں کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری افغان قیادت کے ساتھ واضح انڈراسٹینڈنگ ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں یکم مئی سے امریکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔