افغانستان میں 17 سالہ جنگ کے خاتمہ کی کوششیں تیز، مذاکرات آج
خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی خبردار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ لچک دار معاہدہ یا فوجوں کے فوری انخلا کا نتیجہ ان کے سخت دورحکمرانی کی واپسی یا مزید پرتشدد خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
کابل/دوحہ : شورش زدہ افغانستان میں جاری 17 سالہ جنگ کے خاتمہ کے لئے طالبان رہنما اور امریکی نمائندے آج (پیر) ایک مرتبہ پھر قطر میں بات چیت کے لیے ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق گزشتہ ماہ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر امیدیں اس وقت بڑھ گئیں جب دونوں فریقین ایک طریق کار وضع کرنے پر رضامند ہوئے جس میں طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی شامل تھی کہ وہ افغانستان کو عالمی دہشت گرد گروہوں کی محفوظ جنت بننے سے روکیں گے۔
’ڈان‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طالبان-امریکہ کے مابین ہونے والے یہ مذاکرات، 2001 میں امریکی فوج کے طالبان کو اقتدار سے محروم کردینے کے بعد سے لے کر اب تک کے سب سے جامع مذاکرات تھے۔
تاہم اب تک امریکی فوجوں کے انخلا کے تعین اور جنگ بندی کے حوالہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ ملاقاتوں کا محور یہی دونوں مسائل تھے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات میں طالبان کے مزید اراکین بھی شرکت کریں گے جن میں سابق نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس استانکزئی بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ کسی فریق کی جانب سے مذاکرات کی طوالت یا اس میں زیر بحث آنے والے معاملات کے حوالہ سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گفت و شنید کے اس دور میں طالبان اپنے رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی سفری پابندی کی فہرست سے خارج کرنے کا مطالبہ کریں گے جبکہ امریکہ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر طالبان پر افغان حکومت سے بات چیت کرنے کا دباؤ ڈالا جائے گا۔
اس ضمن میں ’انٹرنیشنل کرائسز گروپ ‘کے گریم اسمتھ کا کہنا تھا کہ’ ’دونوں فریقین کھلے ذہن اور جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ اس عمل کا آغاز کریں گے کیوں جیسے جیسے موسم گرم ہونا شروع ہوگا لڑائی میں اضافہ ہوجائے گا۔ ایک امریکی تجزیہ کار کے مطابق اب نظریں طالبان پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا وہ سمجھوتہ کے لیے تیار ہیں، کیوںکہ اس سے قبل وہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کرچکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد نے جس طرح امن عمل کی کوششیں کی ہیں وہ گزشتہ 2 دہائیوں میں کوئی نہیں کرسکا۔ ایک جانب جہاں افغانستان میں قیام امن کی کوششیں تیز ہورہی ہیں وہیں افغانستان کے اندر ایک خوف یہ بھی پایا جارہا ہے کہ اگر امریکی فوجوں نے انخلا میں جلد بازی کی تو اس سے کئی شہریوں کی جانوں کی قیمت پر بننے والی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
ادھر خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی خبردار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ لچک دار معاہدے یا فوجوں کے فوری انخلا کا نتیجہ ان کے سخت دورحکمرانی کی واپسی یا مزید پرتشدد خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔