’ایران میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کو رد نہیں کیا جا سکتا‘، 2023 کی نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدی کا بیان
نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جیل سے رہائی کا کوئی امکان نہ ہونے اور اپنے خاندان سے علیحدگی کا درد سہنے کے باوجود انہیں امید ہے کہ ایران میں تبدیلی ضرور آئے گی
تہران: سال 2023 کا امن کا نوبل انعام ایران سے تعلق رکھنے والی مقید انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کو فراہم کیا گیا ہے۔ انھیں یہ اعزاز ایران میں خواتین کے استحصال کے خلاف لڑائی اور سبھی کے لیے حقوق انسانی و آزادی کو فروغ دینے کی ان کی لڑائی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی مہم چلانے والی اور 2023 کی نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدی نے ستمبر میں اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جیل سے رہائی کا کوئی امکان نہ ہونے اور اپنے خاندان سے علیحدگی کا درد سہنے کے باوجود انہیں امید ہے کہ ایران میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ محمدی نے تہران کی ایون جیل سے انٹرویو میں نے اے ایف پی کو تحریری جوابات دیے اور اصرار کیا کہ ایک سال قبل ایران میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک اب بھی زندہ ہے۔
بائیس سال قبل پہلی مرتبہ گرفتار ہونے والی 51 سالہ محمدی نے ایران میں انسانی حقوق کے لیے لگاتار مہم چلائی لیکن انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں کا بیشتر حصہ جیل میں گزارا۔ فی الحال وہ نومبر 2021 سے قید ہیں اور انہوں نے آٹھ سال سے اپنے بچوں کو بھی نہیں دیکھا۔
خیال رہے کہ ایران میں خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 16 ستمبر 2022 کو گرفتار کی گئی مہسا امینی کی موت کے بعد جب بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے تو نرگس محمدی اس وقت بھی سلاخوں کے پیچھے تھیں۔ نرگس کا کہنا ہے کہ تحریک نے معاشرے میں عدم اطمینان کی سطح کو واضح کر دیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’حکومت ایران عوامی احتجاج کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور مجھے یقین ہے کہ معاشرے نے ایسی چیزیں حاصل کی ہیں جنہوں نے مذہبی آمرانہ حکمرانی کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔‘‘
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران نے ستمبر 2022 سے پہلے بھی بار بار مظاہروں کے پھیلاؤ کو دیکھا تھا، انہوں نے مزید کہا ’’ہم نے حالیہ برسوں میں عظیم الشان مظاہروں کو دیکھا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ناقابل واپسی نوعیت کی ہیں اور مظاہروں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ "عوامی اور ذاتی زندگی میں خواتین کے خلاف حکومت کے 44 سال کے جبر، امتیازی سلوک اور استحصال کے بعد مظاہروں نے "ایران میں جمہوریت، آزادی اور مساوات کے حصول کے عمل کو تیز کیا ہے۔‘‘
محمدی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرنے والے مظاہروں میں شہری علاقوں اور تعلیم یافتہ طبقے سے باہر کے لوگ ایسے وقت میں شامل تھے جب مذہبی اتھارٹی معاشرے میں اپنی جگہ کھو رہی تھی۔ انہوں نے کہا ’’مذہبی عنصر کے کمزور ہونے سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے حکومت دیگر معاشی اور سماجی عوامل سے پُر نہیں کر سکی، کیونکہ حکومت بنیادی طور پر غیر موثر اور بدعنوان ہے۔‘‘
لیکن انہوں اس بات پر سخت تنقید کی مغرب کی جانب سے ایران کے لیڈروں کی خوشنودیی کی جاتی ہے اور کہا کہ غیر ملکی حکومتوں نے ایران میں ترقی پسند قوتوں اور رہنماؤں کو تسلیم نہیں کیا اور مذہبی آمرانہ نظام کو برقرار رکھنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
محمدی نے کہا کہ وہ اس وقت 10 سال اور نو ماہ قید کی مشترکہ سزا کاٹ رہی ہیں، انہیں 154 کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی ہے اور ان کے خلاف صرف جیل سے متعلق ان کی سرگرمیوں سے منسلک ہی پانچ مقدمات زیر التواء ہیں۔ انہوں نے کہا ’’میرے آزاد ہونے کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔