بنگلہ دیش: چھوٹے ٹائیگر کے بڑے منصوبے
بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے لیکن یہ انتہائی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ٹیکسٹائل برآمدات کی وجہ سے اس کی معیشت توانا ہو رہی ہے اوروہ پاکستان اور ہندوستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے اور کئی شعبوں میں وہ ’جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک مثال‘ ہے۔ یہ الفاظ حکومتی سربراہ شیخ حسینہ کے نہیں ہیں، جو 30 دسمبر کے انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتی ہیں۔ یہ الفاط مؤقر برطانوی جریدے ’اکانومسٹ‘ کے ہیں۔ ایک سو پینسٹھ ملین نفوس پر مشتمل اس ملک کی گزشتہ دہائی کی ترقی قابل ستائش ہے۔
سن 2008 کے بعد سے اس ملک کی اقتصادی شرح نمو چھ فیصد سے زائد چلی آ رہی ہے۔ گزشتہ برس جی ڈی پی کی سالانہ شرح سات اعشاریہ تین فیصد رہی، جو کہ ہندوستان اور پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ اگر امریکی ڈالر کو بنیاد بنایا جائے، تو اس ملک میں فی کس سالانہ پیداوار پاکستان سے زیادہ بنتی ہے۔
بنگلہ دیش کی سالانہ اقتصادی نمو میں صنعتی حصہ تقریباً 30 فیصد بنتا ہے جبکہ 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے وقت اس دور کے مشرقی پاکستان میں یہ حصہ صرف 7 فیصد تھا۔ سن 1970 میں اس کو ایک تباہ کن طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعد ازاں بنگلہ دیش کے پہلے حکومتی سربراہ شیخ مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ اس وقت لاشوں کی تدفین کے لیے کفن کی خاطر کپڑا بھی کافی نہیں تھا۔ اب یہی ملک پاکستان اور ہندوستان دونوں سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے۔
بھارت اور پاکستان سے آگے
بنگلہ دیش میں بچوں کی شرح اموات بھی پاکستان اور ہندوستان سے کم ہے جبکہ اس ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح بھی ان دونوں ملکوں سے کہیں زیادہ فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کے شہریوں کی متوقع اوسط عمر بھی پاکستان اور ہندوستان کے شہریوں سے زیادہ ہے۔
واشنگٹن میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے گلوبل ہنگر انڈکس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس بنگلہ دیش میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعداد ساڑھے چھبیس فیصد تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو ابھی تک سنگین مسائل کا سامنا ہے لیکن سن 1992 کے مقابلے میں یہ تعداد نصف ہے۔ اس وقت یہ شرح 53 اعشاریہ چھ فیصد بنتی تھی۔ دوسری جانب پاکستان اور ہندوستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش کی اس کامیابی کے پیچھے بنیادی وجہ بچوں کی شرح پیدائش ہے۔ عالمی بینک کے سن 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچوں کی شرح پیدائش فی عورت 3.5 ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح ہندوستان (2.3) سے بھی کم ہے، جو 2.1 بنتی ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی ترقیاتی منصوبے بھی اس ملک کی اقتصادی ترقی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ملک نہ صرف چین بلکہ ہندوستان کی توجہ کا بھی مرکز ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اکانومسٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے آئندہ مزید ترقی کرنے کے مواقع اور امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن داخلی سیاست کی وجہ سے وہ اپنی اقتصادی ترقی کی راہ میں خود ہی ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Dec 2018, 6:47 AM