ایک اور انسانی المیہ: افغانوں کی جبری واپسی

سخت سردی میں پاکستان سے وطن واپسی پر افغانوں کو مناسب پناہ نہیں ملی تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ اکتوبر سے اب تک تقریباً پانچ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں

<div class="paragraphs"><p>افغان مہاجرین / آئی اے این ایس</p></div>

افغان مہاجرین / آئی اے این ایس

user

مدیحہ فصیح

پاکستان سے افغانوں کی جبری واپسی کی شکل میں ایک اور انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ سخت سردیوں میں پاکستان چھوڑنے والے افغانوں کو موت کا خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں مقیم افغان باشندے اپنے وطن واپس لوٹتے ہیں اور افغانستان میں انہیں مناسب پناہ نہیں ملتی تو وہ سخت سردیوں میں مر سکتے ہیں۔ پاکستان حکومت کی جانب سے افغانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن انتہائی متنازعہ ہے اور اس کی مذمت انسانی حقوق کی تنظیموں، افغان طالبان، امدادی ایجنسیوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی ہے۔

اکتوبر کے اوائل سے جب پاکستان حکومت نے غیر قانونی طور پر ملک میں موجود غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے اور ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تب سے تقریباً پانچ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ ان غیرملکیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے ۔ان کی جبری واپسی افغانستان اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی خدمات فراہم کرنے والی امدادی ایجنسیوں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور کم ہوتا درجہ حرارت سرحد پر حالات ابتر بنا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بہت سے افغان واپس آنے والے غیر محفوظ ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اگر انہیں مناسب پناہ گاہ کے بغیر چھوڑ دیا گیا تو سخت سردی میں ان کی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ سرحد پر پہنچنے والے لوگ تھک چکے ہیں اور انہیں فوری مدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہے۔ ایجنسی نے کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سرد موسم اور پاکستان سے مشکل سفر کے نتیجے میں بہت سے لوگ بیماری کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔ افغان خاندان فکر مند ہیں کہ بعض علاقوں، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں سردیوں کا سرد درجہ حرارت انہیں فوراً گھر واپس جانے سے روک سکتا ہے۔

افغانستان واپس آنے والوں میں وہ خاندان بھی شامل ہیں جو کبھی بھی ملک میں نہیں رہے۔ وہ پاکستان میں ایک یا زیادہ نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس واپس جانے کے لیے گھر یا رشتہ دار نہ ہو۔ ایسے لوگوں کو کرایہ ادا کرنے کے لیے نقد رقم درکار ہے۔ کچھ اپنے خاندان، رشتہ دار یا دوستوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں جبکہ بہت سے ایسے ہوں گے جن کے گھروں کو مرمت کی ضرورت ہے ۔ ایجنسی نے کہا کہ وہ ایسے گھرانوں کو خیمے فراہم کرے گی اور جن لوگوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، وہ سرحد کے قریب قائم ان کیمپوں میں رہ سکتے ہیں۔


دوسری جانب طالبان کی قائم کردہ ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ وہ دو اہم سرحدی گزر گاہوں ۔ طورخم اور اسپن بولدک ۔ پر خوراک، پانی، سم کارڈ، کپڑے اور نقدی تقسیم کر رہی ہے۔ کمیٹی نے مزید بتایا کہ واپس لوٹ رہے افغان خاندان اپنے ملک افغانستان، اسلامی نظام، عارضی رہائشی انتظامات، رجسٹریشن اور نقل مکانی کے بارے میں بھی سیکھ رہے ہیں۔ لیکن انتہائی درجہ حرارت اور صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک محدود رسائی کی وجہ سے متعدی بیماریوں اور غذائی قلت میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ خواتین (صنفی مساوات کے لیے عالمی ادارہ) نے کہا کہ پاکستان چھوڑنے والی افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے اضافی چیلنجز ہیں کیونکہ انہیں طالبان کی پابندیوں سے نمٹنا ہے جو ان کی نقل و حرکت اور معلومات اور خدمات تک رسائی کو متاثر کر سکتی ہیں اگر ان کا کوئی مرد رشتہ دار نہ ہو۔ ادارہ نے افغانستان کے مغرب میں اکتوبر کے مہلک زلزلوں کے بعد بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ایجنسی کے مطابق طورخم اور اسپن بولدک کے راستے واپس آنے والے افغان باشندوں میں 80 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ بہت سی خواتین پاکستان میں ’پریشان کن تجربات‘ سے گزر رہی ہیں جن میں غیر قانونی حراست کا شکار ہونا، اپنے شریک حیات یا خاندان کے افراد کو گرفتار ہوتے دیکھنا، یا رشتہ داروں سے الگ ہونا اور اکیلے افغانستان واپس جانا شامل ہے۔ ایسی خواتین مجبور تھیں کہ وہ نقل و حمل کے عوض اپنا مال ، سارا سامان پیچھے چھوڑ دیں یا اپنی آمدنی پاکستانی حکام کے حوالے کر دیں۔

دریں اثنا، افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے دن اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ طالبان کو افغانستان میں انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو قبول کرنا چاہیے اور ان کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو ختم کر دیا ہے، جس سے افغان خواتین اور لڑکیاں شدید متاثر ہیں۔ انہیں زیادہ تر عوامی مقامات اور روزمرہ کی زندگی سے خارج کر دیا گیا ہے۔


طالبان کی یہ پابندیوں عالمی مذمت کا موجب بنی ہیں جبکہ افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن طالبان کی ناکامیوں جیسے ماورائے عدالت قتل، تشدد اور ناروا سلوک، جسمانی سزا، من مانی گرفتاری اور نظر بندی، اور قیدیوں کے حقوق وغیرہ کی خلاف ورزیوں کو اجاگر اور ریکارڈ کرتا ہے۔ مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ ملک کی مستقبل کی خوشحالی، ہم آہنگی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے حقوق کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ کابل میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی نمائندہ فیونا فریزر نے کہا کہ ہم افغان انسانی حقوق کے محافظوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو انسانی حقوق، امن، انصاف اور آزادی کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔