القاعدہ اور داعش اگلے 6 سے 36 ماہ میں افغانستان میں دوبارہ منظم ہوسکتے ہیں: امریکی جنرل

جنرل مارک اے میلے نے کہا ہے کہ اس بات کا ’حقیقی امکان‘ ہے کہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اگلے چھے سے 36 ماہ کے دوران میں القاعدہ یا داعش تنظیم افغانستان میں دوبارہ منظم ہو سکتی ہے

امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے میلے
امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے میلے
user

قومی آواز بیورو

واشنگٹن: امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے میلے نے کہا ہے کہ اس بات کا ’حقیقی امکان‘ ہے کہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد اگلے چھے سے 36 ماہ کے دوران میں القاعدہ یا داعش تنظیم افغانستان میں دوبارہ منظم ہو سکتی ہے۔

جنرل میلے نے امریکی ایوان نمایندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت میں کہا ’’مستقبل میں یہ ایک حقیقی امکان ہے کہ 6، 12، 18، 24 اور36 ماہ کے دورانیے میں القاعدہ یا داعش کی تشکیل نو ہوسکتی ہے۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم افغانستان سے حملوں کے خلاف امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرتے رہیں۔‘‘


امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جنرل میلے کے اس تجزیے سے اتفاق کیا اور کہا ’’القاعدہ کاوقت کے ساتھ ساتھ سرکچلا گیا ہے مگراب دہشت گرد تنظیمیں غیرانتظامی جگہوں کی تلاش میں ہیں تاکہ وہ تربیت حاصل کر سکیں،خودکو لیس کرسکیں اور پھل پھول سکیں۔اسی طرح وہاں (افغانستان میں) واضح طور پر اس بات کا امکان موجود ہے کہ آگے بڑھتے ہوئے ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘

طالبان نے 15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب وہ اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انھوں نے امریکہ سے جنگ بندی کے معاہدے میں یہ وعدہ کیا تھاکہ ان کا ملک دوسرے ممالک پر دہشت گرد حملوں کا ٹھکانا یا لانچ پیڈ نہیں بنے گا۔انھوں نے کابل پر کنٹرول کے بعد بھی اس عزم کا اعادہ کیا ہے۔


مگرعالمی برادری بدستور شکوک و شبہات کا شکار ہے اور کسی بھی ملک نے ابھی تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے گذشتہ ماہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے طالبان حکومت کی قانونی حیثیت کوتسلیم کرنے سے متعلق جلدبازی میں کسی بھی موقع پر فیصلے کی تردید کی تھی۔

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق کانگریس میں سماعت میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دفاعی حکام خود افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے شاہد تھے اور وہ ایسا ہوتا دیکھ رہے تھے۔

امریکہ کی مسلح افواج کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے اپنے بیان میں کہا کہ’’انھیں کافی عرصے سے یہ یقین تھاکہ اگر امریکہ نے افغانستان میں اپنے فوجی مشیروں کی تعداد کو ایک مخصوص حد سے کم کر دیا تو کابل کی حکومت اور اس کی فوج کالازمی طور پرسقوط ہوجائے گا۔‘‘ ان کے بہ قول صدر جو بائیڈن کا فوجی انخلا کا فیصلہ افغانستان میں 20 سالہ جنگی کوششوں کے’’تابوت میں دوسرا کیل‘‘ثابت ہوا ہے۔


وزیردفاع لائیڈ آسٹن نے پینٹاگون کے اعلیٰ عہدہ دار کے اس عسکری تجزیے کی تائید کی اور کہا کہ ’’امریکہ کی جانب سے دوحہ معاہدے کے حصے کے طورپرطالبان کے خلاف فضائی حملے روکنے پررضامندی کے بعدطالبان مضبوط ہوگئے تھے۔انھوں نے افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں تیز کردیں اور ان کے نتیجے میں افغان ہرہفتے بڑی تعداد میں اپنے لوگوں کوکھو رہے تھے۔‘‘

(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔