افغانستان: طالبان کی پریڈ میں امریکی ہتھیاروں کی نمائش

ناقدین نے طالبان کی پریڈ کو افغانستان میں امریکی ناکامی کا ثبوت قرار دیا اور کہا ہے کہ صدر بائیڈن کی افغانستان سے تیزی سے نکلنے کی کوشش طالبان کے پاس امریکی ہتھیاروں کا باعث بنی ہے

<div class="paragraphs"><p>طالبان کی پریڈ / Getty Images</p></div>

طالبان کی پریڈ / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

14 اگست کو طالبان نے افغانستان سے افراتفری کے عالم میں امریکی انخلاء کی تیسری سالگرہ منائی جس میں امریکی ہتھیاروں اور گاڑیوں کے ساتھ بگرام فضائی اڈے پر پریڈ کی گئی۔ بگرام ایئرفیلڈ کبھی طالبان کو ختم کرنے اور نائن الیون حملوں کے ذمہ دار القاعدہ عسکریت پسندوں کو تلاش کرنے کے لیے امریکہ کی جنگ کا مرکز تھا۔ باوردی سپاہیوں نے ہلکی ، بھاری مشین گنوں اور دیگر جنگی ساز و سامان کے ساتھ مارچ کیا ۔ ہر عمر کے لوگوں سے بھرے ٹرک جشن مناتے کابل کی سڑکوں سے گزرے۔ اگست 2021 میں ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے بگرام پریڈ طالبان کی سب سے عظیم الشان تقریب تھی۔ تقریباً 10 ہزار افراد کے سامعین میں قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب اور قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی جیسے سینئر طالبان عہدیدار شامل تھے۔ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ پریڈ میں موجود نہیں تھے۔

اس موقع پر طالبان کی کابینہ کے ارکان نے اسلامی قانون کو مضبوط بنانے اور مبینہ طور پر امن اور تحفظ فراہم کرنے والے فوجی نظام کے قیام جیسی کامیابیوں کو سراہا۔ لیکن امریکی فوج کے سابق فوجی بل روگیو نے فاکس نیوز کو بتایاکہ پریڈ کے ذریعے طالبان اپنی فتح پر ہمیں چڑھا رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے سینئر فیلو روگیو نے پریڈ کو افغانستان میں امریکی ناکامی کا ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی افغانستان سے تیزی سے نکلنے کی کوشش طالبان کے پاس امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا باعث بنی ہے۔

افغانستان سے فوجیں نکالنے کے صدر بائیڈن کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر عالمی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب طالبان نے 15 اگست 2021 کو، امریکی زیر قیادت افواج کے ہاتھوںاپنی بے دخلی کے 20 سال بعد، ملک پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا ۔ حالانکہ اس سے صرف ایک ماہ قبل صدربائیڈن نے امریکیوں کو بتایا تھا کہ طالبان کے قبضے کا امکان بہت کم ہے۔ فوجی انخلاء، جس کے مکمل کرنے کے لیے زمین پر ہزاروں اضافی امریکی فوجیوں اور طالبان کی جانب سے اہم تعاون کی ضرورت تھی، 30 اگست 2021 کی ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے ختم ہو گیاتھا۔ صدر بائیڈن کے سب کو باہر نکالنے کے وعدہ کے باوجود سینکڑوں امریکی شہریوں اور ہزاروں افغان اتحادیوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ 26 اگست 2021 کو، کابل کے ہوائی اڈے پر امریکی فوج کے بڑے پیمانے پر انخلاء کے دوران، خودکش بمباروں نے 13 امریکی فوجیوں سمیت 183 افراد کو ہلاک کر دیا۔ امریکہ نے دولت اسلامیہ عراق و شامـ خراسان کے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی میں دو ڈرون حملےکئے جن میں سے ایک میں سات بچوں سمیت 10 افغان شہری مارے گئے۔


طالبان کی تقاریر بین الاقوامی سامعین کے لیےتھیں، جن میں مغرب پر زور دیا گیا کہ وہ ملک کے حکمرانوں کے ساتھ بات چیت اور تعاون کریں۔ اس وقت کوئی بھی ملک طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا۔ نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر نے کہا کہ امارت اسلامیہ نے اندرونی اختلافات کو ختم کیا ہے اور ملک میں اتحاد و تعاون کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ کسی کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی اور افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ لیکن روگیو نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ طالبان نے اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے بارے میں مسلسل جھوٹ بولا ہے۔ انہوں نے القاعدہ اور دوسرے گروہوں کو پناہ دی جن کی وہ آج تک حمایت کرتے ہیں۔ روگیو طالبان کو افغانستان سے باہر خطرہ نہیں سمجھتے۔ پریڈ بنیادی طور پر آپٹکس اور طالبان کی صلاحیتوں کا مظاہرہ تھا۔ یہ سازوسامان افغانستان میں طاقت دکھانے اور اقتدار میں بنےرہنے کے لیے کارآمد ہے۔ تقریب میں طالبان کی جانب سے اپنی صلاحیتوں کے شاندار مظاہرہ کے باوجود افغان عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ کئی دہائیوں کے تنازعات اور عدم استحکام نے لاکھوں افغانوں کو بھوک اور افلاس کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور خواتین کے چھٹی جماعت سے آگے اسکول جانے پر پابندی ہے۔

افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے شورش سے اقتدار کی طرف منتقلی کی ہے، اسلامی قانون کی اپنی تشریح نافذ کی ہے اور اپنے جائز ہونے کے دعوے کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کے سرکاری حکمرانوں کے طور پر کوئی بین الاقوامی شناخت نہ ہونے کے باوجود، طالبان چین اور روس جیسی بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے مذاکرات میں بھی شرکت کی جبکہ افغان خواتین اور سول سوسائٹی کو وہاں بیٹھنے سے منع کر دیا گیا۔ یہ طالبان کے لیے ایک فتح تھی، جو خود کو ملک کے واحد حقیقی نمائندے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کی حکمرانی کے لیے کوئی داخلی چیلنج نہیں ہےجب کہ عالمی برادری کی توجہ یوکرین اور غزہ، فلسطین میں جنگوں پر ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ اہرام نما حکمرانی کے نظام کے اوپر فضیلت کے نمونے کے طور پر بیٹھے ہیں۔ مساجد اور علماء ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف کابل انتظامیہ ہے، جو علما کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتی ہے اور غیر ملکی حکام سے ملاقاتیں کرتی ہے۔ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے، تجربہ کار طالبان میدان جنگ سے بیوروکریسی میں چلے گئے ہیں، حکومت اور صوبوں میں اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک غیرمقامی اسکالر جاوید احمد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، طالبان سخت گیر حکمرانوں اور سیاسی عملیت پسندوں کے ایک غیر فطری اتحاد میں ہیں۔ تاہم، کرائسز گروپ کے جنوبی ایشیا پروگرام سے وابسطہ ابراہیم بہیس کا خیال ہے کہ طالبان متحد ہیں اور کئی سالوں تک سیاسی قوت رہیں گے۔ وہ ایک گروہ کے طور پر حکومت کرتے ہیں اور ایک گروہ کے طور پر لڑتے ہیں۔ یہ جدید دور کی سب سے مضبوط افغان حکومت ہے۔ وہ گاؤں کی سطح تک کوئی بھی حکم صادر کر سکتے ہیں۔


دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی معیشت کمزور ہو چکی ہے۔ 2023 میں، غیر ملکی امداد ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 30 فیصد بنتی ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ تین سالوں کے دوران بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے کم از کم 3.8 ارب ڈالر بھیجے۔ امریکہ اب بھی سب سے بڑا ڈونر ہے، جو طالبان کے قبضے کے بعد سے 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد بھیج چکا ہے۔ 2023 میں طالبان نے تقریباً 2.96 ارب ڈالرٹیکس سے جمع کیے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے اور طالبان کے پاس معیشت کو متحرک کرنے کے ذرائع بھی نہیں ہیں۔ مرکزی بینک کرنسی نہیں چھاپ سکتا۔ یہ بیرون ملک چھپتی ہے۔ سود کے لین دین پر پابندی ہے کیونکہ اسلام میں سود حرام ہے، اور بینک قرض نہیں دے رہے ہیں۔ طالبان پیسے نہیں لے سکتے کیونکہ انہیں حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور بین الاقوامی بینکنگ منقطع ہے۔

قدرتی آفات اور وطن واپسی کے دباؤ میں پاکستان سے فرار ہونے والے افغانوں نے ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افغانستان کے غیر ملکی امداد پر انحصار کو واضح کیا ہے۔ معیشت کو ایک اور اہم دھچکا طالبان کی طرف سے خواتین کی تعلیم اور زیادہ تر ملازمتوں پر پابندی لگانا ہے، جس سے افغانستان کی نصف آبادی کو اخراجات اور ٹیکس کی ادائیگی سے نکال دیا گیا ہے جس سے معیشت مضبوط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، طالبان کی انسداد منشیات کی پالیسی نے ہزاروں کسانوں کی روزی روٹی کو تباہ کر دیا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں بین الاقوامی تعلقات کی ایک لیکچرر، ویدا مہران نے کہا، طالبان کا زور اس بات پر ہے کہ وہ حکومت کے طور پر کتنے موثر ہیں ، یہ دکھانے کے لیے کہ ملک پرامن ہے اور عوام کو خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے میڈیا کے درجنوں ادارے گم ہو چکے ہیں۔ لیکن ملک کے حکمرانوں نے سوشل میڈیا کے اثرات کو سمجھ لیا ہے۔ ان کے مواد کا مقصد اسلامی قانون کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو معمول بنانا ہے، اور ایسا کرنے کےلیے عربی زبان میں پیغام رسانی اہم ہے۔ یہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر وائٹ واش کرنے کے مترادف ہے۔ طالبان نے چیک پوائنٹس، بکتر بند گاڑیوں اور لاکھوں جنگجوؤں کے ذریعے افغانستان کو محفوظ کر لیا ہے۔ لیکن ملک محفوظ نہیں ہے، خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے لیے، کیونکہ خودکش بم دھماکوں اور دیگر حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں جاری ہیں۔ دولت اسلامیہ گروپ نے بارہا کابل میں زیادہ تر شیعہ دشت برچی محلے کو نشانہ بنایا ہے۔علاوہ ازیں افغان خواتین اضطراب کا شکار ہیں کیونکہ طالبان نے لباس، کام اور سفر سے متعلق احکام نافذ کر دئیے ہیں اور سفر کے دوران انہیں ایک مرد سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔