جنگ خاتمہ کے بعد بھی اسرائیلی فوج کا ایک حصہ غزہ میں رہے گا: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسرائیلی افواج لڑائی ختم ہونے کے بعد سکیورٹی معاملات کو سنبھالنے کے لیے غزہ میں موجود رہیں گی۔ امریکی انتظامیہ کے پاس تنازع کے خاتمے کے بعد غزہ کے مستقبل کا کوئی حتمی حل نہیں ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ</p></div>

تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

user

قومی آواز بیورو

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ کچھ اسرائیلی فوجیں غزہ میں لڑائی کے خاتمے کے بعد سکیورٹی معاملات کو سنبھالنے کے لیے موجود رہیں گے۔ امریکی انتظامیہ کے پاس تنازع کے خاتمے کے بعد غزہ کے مستقبل کا کوئی حتمی حل نہیں ہے۔

امریکہ کی اس وقت توجہ غزہ سے تمام یرغمالیوں بالخصوص امریکیوں کو نکالنے پر ہے۔ غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے حکمت عملی سے جنگ بندی کے وجود کے بارے میں متضاد اطلاعات کے بعد امریکی اور اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے پیر کو فون پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ غزہ میں پیش رفت کی اجازت دینے کے لیے تین دن تک لڑائی روکنے پر رضامند ہوجائے۔ کچھ یرغمالیوں کو رہا کیا جا رہا ہے جنہیں حماس نے غزہ میں حراست میں لیا ہے۔


امریکہ، اسرائیل اور قطر کے درمیان زیر بحث تجویز کے مطابق حماس 10 سے 15 یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ تمام یرغمالیوں کی شناخت کی تصدیق کے لیے تین دن کے وقفے کا استعمال کرے گی اور یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے گی۔

اسرائیلی حکام کے مطابق، 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے حملے کے دوران کم از کم 240 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حماس نے دو بزرگ اسرائیلی خواتین اور دو امریکیوں کو رہا کر دیا ہے۔ دو اسرائیلی حکام نے کہا کہ اسرائیلی اندازوں کے مطابق حماس نے تقریباً 180 افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ فلسطینی تنظیم تحریک اسلامی جہاد نے 40 یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ مسلح دھڑوں سے منسلک افراد نے تقریباً 20 کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

حماس نے منگل کے روز ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ وہ یرغمال بنائے گئے 12 غیر ملکی شہریوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن فضائی حملوں اور اسرائیلی زمینی کارروائی کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے۔

امریکی اور اسرائیلی حکام نے کہا کہ نیتن یاہو نے بائیڈن کو بتایا کہ انہیں حماس کے ارادوں پر بھروسہ نہیں ہے اور وہ یہ نہیں مانتے کہ وہ یرغمالیوں کے حوالے سے کسی معاہدے پر راضی ہونے کو تیار ہے۔ حکام نے مزید کہا کہ اگر لڑائی تین دن تک رک جاتی ہے تو اسرائیل اس آپریشن کے لیے موجودہ بین الاقوامی حمایت کھو سکتا ہے۔


اسرائیلی عہدیدار نے Axios کو بتایا کہ نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی کا ایک حصہ یہ تھا کہ حماس نے 2014 کی جنگ کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ایک گروپ پر حملہ کیا۔ ان میں سے ایک کو اغوا کیا اور متعدد کو ہلاک کیا۔ مذاکرات کی پیچیدہ نوعیت نے یرغمالیوں کو مذاکرات میں پیش رفت کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ اس مسئلے پر کام کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز اس ہفتے مشرق وسطیٰ میں ہیں اور ان کی توجہ یرغمالیوں کی رہائی پر ہے۔ انہوں نے اسرائیل میں بات چیت کی ہے اور اس ہفتے کے آخر میں قطری حکام سے ملاقات کریں گے۔

جمعہ کو تل ابیب میں وزیر خارجہ ٹونی بلینکن سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی امریکی درخواست کو مسترد کردیا۔ نیتن یاھو نے کہا کہ اسرائیل اس وقت تک عارضی جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوگا جب تک یرغمالیوں کو رہا نہیں کردیا جاتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔