محبت کی کہانی: فلسطینی شاعر اور یہودی لڑکی کا وہ 'خفیہ عشق' جو اپنے انجام تک نہیں پہنچ سکا

کہا جاتا ہے کہ محمود درویش نے عشق سے زیادہ اپنی حب الوطنی کو ترجیح دی۔ اپنی زمیں کے لیے انہوں نے اپنی معشوقہ سے رشتہ ختم کر لیا۔ لیکن ان کے لیے حب الوطنی اور تمر کے لیے ان کا عشق ساتھ ساتھ ہی چلا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر 'ایکس'</p></div>

تصویر 'ایکس'

user

قومی آواز بیورو

ایک دن جنگ ختم ہوگی

سیاست دار ایک بار پھر ہاتھ ملائیں گے

بوڑھی ماں شہید کا انتظار کرتی رہے گی

یتیم ہو چکے بچے والد کے لوٹنے کی آس میں ہوں گے

نہیں پتہ کس نے ہماری سرزمیں بیچی

لیکن میں نے دیکھا اس کی قیمت کس نے چکائی…

یہ سطور فلسطین کے مشہور شاعر محمود درویش کی ایک نظم کے ہیں۔ اس میں جنگ اور اس کے بعد کی تباہی کا پورا نچوڑ سمٹا ہوا ہے۔ برتری کے نشے اور زمین کے ٹکڑوں کے لیے لڑے جانے والی جنگوں کی اصل قیمت ایسے لوگوں کو زیادہ چکانی پڑتی ہے جن کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دہائیوں کی نفرت کے انہی گلیاروں میں کبھی نظموں میں بُنہی ہوئی تھی ایک خوبصورت محبت کی کہانی۔ اس کہانی کے ہیرو تھے محمود درویش، جنہیں تمر بین امی نام کی یہودی لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ عشق کو مذہب کی دیواروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ 1948 میں جب عرب-اسرائیل جنگ شروع ہوئی، اس وقت درویش کی عمر صرف سات سال تھی۔ اس جنگ میں تمام فلسطینی دربدر ہو گئے تھے۔ جنگ کی وجہ سے درویش کے کنبہ کو لبنان جانا پڑا۔ ظلم کا یہ دور 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی بدستور جاری رہا۔ لیکن ان کا کنبہ اگلے سال اسرائیل شفٹ ہو گیا اور حیفا شہر میں گزر بسر کرنے لگا۔ لیکن اپنی زمیں سے دور رہنا درویش کو ہمیشہ پریشان کرتا رہا۔ اسی مایوسی اور بے بسی سے ان کی تحریروں کو دھار ملی۔


تمام فلسطینیوں کی طرح اپنے قوم کی آزادی کی خواہش لیے درویش بڑے ہوئے۔ ویسے تو انہوں نے کافی کم عمر میں ہی نظمیں لکھنی شروع کردی تھیں لیکن جب ان کی نظموں میں فلسطین کے لوگوں کی مزاحمت اور جدوجہد کی جھلک صاف دکھنے تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے اور اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی سے جڑ گئے۔ انہیں فلسطین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مزاحمتی شاعر کے طور پر مقبولیت ملی۔

محمود درویش کا پہلا مجموعہ 'ونگلیس برڈس' 19 سال کی عمر میں شائع ہوا۔ ان کی نظموں میں ملک، جنگ اور خواتین اہم کرداروں میں رہے۔ 'رائٹ ڈاؤن' نے انہیں صرف عرب ممالک میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں شہرت دلائی۔ ان کی نظم 'آڈینٹیٹی کارڈ' دنیا بھر میں مزاحمت کی ایک آواز بن گئی۔ دنیا میں اس وقت جہاں کہیں بھی مظاہرے ہوئے ان کی اس نظم کو پروٹسٹ اسنگ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ 1973 میں فلسطین لبریشن تنظیم سے جڑنے کی وجہ سے انہیں جلاوطنی کی زندگی جینے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ 26 برسوں تک بیروت اور پیرس میں رہے۔ سال 2008 میں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن ان کے انتقال کے 16 برس بعد آج بھی ان کی اس پریم کہانی کی چرچا ہوتی ہے جو بھلے ہی مکمل نہیں ہو پائی لیکن ایک وقت میں جنگ کی تباہی کے درمیان نظموں اور خطوں میں پیروئی جاتی تھی۔


ایک وقت تھا جب درویش اسرائیل کی ایک کمیونسٹ پارٹی 'راکہہ' سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ پارٹی اسرائیل میں فلسطین کے حقوق کی پیروکار تھی۔ درویش نے پارٹی کے اخبار الاتحاد کے عربی شمارہ کی ادارت بھی کی۔ اس وقت اسرائیل میں رہ رہے فلسطینی کھل کر قومی جذبہ کا اظہار نہیں کر سکتے تھے لیکن درویش لگاتار اپنی نظموں میں فلسطین کے تئیں اپنی محبت اور اسرائیلی ظلم کو لے کر کھل کر لکھ رہے تھے۔ اس وجہ سے انہیں کئی بار جیل بھی جانا پڑا تھا۔

محمود درویش اس وقت محض 17 سال کے تھے، جب ان کی ملاقات 16 سال کی تمر سے ہوئی۔ وہ یہودی خاتون تھی۔ دونوں کی ملاقات راکہہ کی ایک ریلی کے دوران ہوئی تھی۔ یہ درویش کے لیے پہلی نظر کا پیار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ‘He fel first but she fel harder…’۔ درویش برسوں تک تمر کو خطوط لکھتے رہے۔ جنگ کی تباہ کاری کے درمیان دشمن قوموں کے باشندوں کا یہ عشق پروان چڑھ رہا تھا۔ درویش ہبرو زبان میں تمر کو خط لکھا کرتے تھے۔ دونوں کا رشتہ طویل عرصے تک خفیہ ہی رہا۔


محمود درویش نے ایک بار لکھا کہ میرے مذہب، میرے شہر اور رسم و رواج کی بیڑیوں کے باوجود میں تم سے محبت کرتا ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر سب کچھ فروخت کر دوں گا تو تم مجھے بیچ دو گی اور میرے پاس مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔ درویش اپنی نظموں میں 'ریٹا' نامی خاتون کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ریٹا کا ذکر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن اور صلح کی کسی بھی طرح کا امکان نہیں ہونے کی علامت بھی تھا۔

درویش نے برسوں بعد ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ اپنی نظموں میں جس ریٹا نام کی خاتون کا ذکر کرتے ہیں وہ اصل میں تمر ہی ہیں۔ تمر کے لیے ہی لکھی گئی ان کی ایک مشہور نظم ‘Rita and the Rifle’ کو ان کی عظیم ترین تخلیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ 1964 میں درویش نے اپنی بے حد مقبول نظم ‘Write down I’m an Arab’ لکھی جس کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ اسی نام سے بعد میں دونوں کے رشتوں پر ایک ڈاکیومنٹری بھی ریلیز ہوئی۔ 1973 میں شائع ‘Journal of an Oridnary Grief’ میں درویش لکھتے ہیں کہ ریت اور پانی کے درمیان اس نے کہا، 'آئی لو یو'۔ خواہش اور استحصال کے درمیان میں نے بھی کہا 'آئی لو یو'۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی مجموعہ میں درویش لکھتے ہیں کہ جب وہ جیل میں مجھ سے ملنے آئی تو جیل افسر نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کرنے آئی ہو؟ اس پر اس نے کہا کہ میں ان کی معشوقہ ہوں اور انہیں الوداع کہنے آئی ہوں۔ اس نے جیل افسر کو بتایا کہ وہ بھی اگلے سال تک افسر بن جائے گی۔ وہ اپنے ساتھ اسرائیلی فوج آئی ڈی ایف میں بھرتی ہونے کا تقرر نامہ لے کر آئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تمر کا آئی ڈی ایف میں بھرتی ہونا ان کے عشق کا خاتمہ تھا۔ بعد میں درویش نے لکھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر میرے ملک پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے۔

بعد میں ایسی قیاس آرائیاں بھی ہوئیں کہ درویش نے عشق سے زیادہ اپنی حب الوطنی کو ترجیح دی۔ اپنی زمیں کے لیے درویش نے تمر سے رشتہ ختم کر لیا۔ لیکن ان کے لیے حب الوطنی اور تمر کے لیے ان کا عشق ساتھ ساتھ ہی چلا۔ جب بھی وہ 'ریٹا' کے بارے میں لکھتے تھے حقیقت میں وہ اپنے وطن کے بارے میں لکھ رہے ہوتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح سے جب بھی انہوں نے اپنے وطن کے بارے میں لکھا تو اس میں ریٹا کی موجودگی کا احساس بھی تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔