چین میں 8000 مساجد مکمل طور پر منہدم کی گئیں
اس بار چین کا شکار ایغورمسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ کمیونٹی ہے جو اب تک وہاں بہت طاقتور سمجھی جاتی تھی اور یہ کمیونٹی’ ہوئی‘ مسلم کمیونٹی ہے ۔
چینی حکومت نے ایک بار پھر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے وہاں ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع خبر کے مطابق یوننان صوبے میں اس واقعے کے بعد وہاں کشیدگی کا ماحول ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اس بار چین کا شکار ایغورمسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ کمیونٹی ہے جو اب تک وہاں بہت طاقتور سمجھی جاتی تھی۔ ’ہوئی‘ مسلمانوں کی ایک طاقتور کمیونٹی ہے جو چین کے لوگوں کے درمیان رہتی ہے ۔
چین میں مسلمانوں پر مظالم رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب صوبہ یوننان میں 14ویں صدی کی مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں میں کافی غصہ پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں، جن میں سینکڑوں لوگ مسجد کے سامنے جمع ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لیے پولیس فورس بھی وہاں تعینات ہے۔
ہوئی مسلمان کون ہیں؟
چین میں ایغور مسلمانوں کے خلاف تشدد کی خبریں آتی رہی ہیں لیکن اس بار نشانہ ہوئی مسلمان ہیں۔ چین میں دودھ میں پانی کی طرح مل جانے والی یہ سنی برادری بالکل مختلف ہے۔ سال 2020 کی مردم شماری کے مطابق وہاں تقریباً 11.5 ملین لوگ رہتے ہیں۔ وہ آبادی کے لحاظ سے چین کی چوتھی بڑی کمیونٹی ہیں۔ چین میں موجود دوسری مسلم کمیونٹی جہاں ایغورکا تعلق ترکی سے ہے ان کو لوگوں نے اپنایا ہوا ہے ۔
ہوئی مسلمان کسی ایک صوبے تک محدود رہنے کے بجائے تقریباً پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر مسلم کمیونٹیز کے برعکس، وہ چینیوں کی طرح رہتے اور کھاتے ہیں۔ وہ چینی بولتے ہیں اور ان جیسے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ واحد مسلم کمیونٹی ہے جس کے بارے میں چین میں کوئی الگ بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انہیں چین کے پسندیدہ مسلمان بھی کہا جاتا تھا۔
تقریباً 9 سال پہلے ماحول بدلنا شروع ہوا۔
سال 2009 میں جب چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغوروں کے خلاف تشدد ہوا تو چین کے تقریباً ہر صوبے میں ہوئی مسلمان آزادانہ گھوم رہے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ چین اس کمیونٹی کو اپنے سے الگ نہیں سمجھتا۔ تاہم سال 2014 سے مسلمانوں کی حالت بدلنا شروع ہوگئی۔ چین میں ایک مہم شروع ہوئی جس میں مجموعی طور پر چین چاہتا ہے کہ ان کے ملک میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے بالکل ان جیسے ہی رہیں ۔
امریکی نیوز میڈیا ریڈیو فری ایشیا کی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ان کے بقول چینی انتظامیہ نے پانچ سالہ پروگرام بنایا، جس میں اسلام مذہب کے ماننے والے اپنی مذہبی شناخت چھوڑ دیں، جیسے لمبی داڑھی رکھنا، مختلف لباس پہننا، یا کثرت سے مساجد جانا۔
اس کے لیے چین نے بیجنگ، شنگھائی، ہنان، یوننان سمیت 8 ریاستوں سے مسلم نمائندوں کو بلایا اور ان کے ساتھ منصوبہ شیئر کیا۔ مساجد میں کہا گیا کہ وہ چینی چیزوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں، تاکہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت میں اس قدر متعصب نہ رہیں۔
چین کے مسلمانوں کے بارے میں خوف کی سب سے بڑی مثال مساجد کی شناخت ہے اس لئے مساجد سے گنبد ہٹا کر مسجد کو دوبارہ تعمیر کرانیا گیا ۔ صوبائی حکومتوں نے گنبدوں کو ہٹانے اور نقش و نگار سے سبز رنگ کو اتنے مہینوں میں ہٹانے کی ڈیڈ لائن مقرر کرنا شروع کر دی۔ حال ہی میں صوبہ یوننان کی ایک مسجد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جب مقامی لوگوں نے عمارت کو گھیر لیا۔
کتنی مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی؟
چینی فن تعمیر سے کتنی مساجد پر مہر ثبت ہوئی ہے اس کا کوئی حساب نہیں لیکن سنکیانگ صوبے کا ڈیٹا خوفناک ہے۔ آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) کے مطابق صوبے بھر میں 533 مساجد تھیں۔ ان میں سے 31 فیصد سے زائد مساجد کو مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا۔ تقریباً 32 فیصد توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ اب صرف 35 فیصد یعنی 188 مساجد رہ گئی ہیں جو بالکل درست حالت میں ہیں۔
اے ایس پی آئی کا یہ بھی اندازہ ہے کہ چین بھر میں تقریباً 16,000 مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے، اور 8000 سے زیادہ عمارتیں مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہیں۔ عام طور پر چین کی انتظامیہ مقامی لوگوں خصوصاً اقلیت کو کوئی وجہ نہیں بتاتی کہ وہ یہ کام کیوں کر رہی ہے۔ ابھی تک ان تمام مساجد کے بارے میں کوئی وضاحت موصول نہیں ہوئی جو گرائی گئی ہیں، بلکہ نوٹس دیا گیا ہے۔ سال 2020 میں معاملہ اس وقت بہت بڑھ گیا تھا، جب پبلک ٹوائلٹ بنانے کے نام پر مساجد کو گرانے کی کوشش کی گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔