کیا آپ کسی بھی زاویہ سے موجودہ منظرنامہ کو ترقی یافتہ دنیا تصور کریں گے؟… حمرا قریشی

وادیٔ کشمیر سے کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں جو پریشان کرنے والی ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے کشمیر بھی دائیں بازو کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی</p></div>

اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں تباہی کا منظر / یو این آئی

user

حمرا قریشی

ایک چیز جو مجھے مسلسل پریشان کرتی ہے، وہ یہ سوچ اور سوال ہے کہ کیا ہم ایک ترقی یافتہ ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، یا پھر حالات وحشیانہ شکل اختیار کر رہے ہیں؟

جب ہم کسی ملک میں مکمل نسل کشی دیکھ رہے ہیں، کئی ممالک میں بھوک سے اموات کا سامنا ہے، جب شہریوں کی موب لنچنگ ہو رہی ہے، جب عورتیں و بچے اور نوزائیدہ کی خرید و فروخت ہو رہی ہو، لاشوں کا سودا ہو رہا ہے، بے گناہوں کو مجرم ظاہر کر پریڈ کرایا جاتا ہے، جب غریبوں و پسماندہ افراد کے گھروں پر بلڈوزر ایکشن دیکھنے کو ملتا ہے، جب سزا یافتہ مجرم اور زانیوں و قاتلوں کو جیل کی کوٹھریوں سے مختصر یا طویل وقفہ کے لیے نکل کر گھومنے کی اجازت مل جاتی ہے، جب حقائق اور سچائی کو حکمرانی کرنے والوں کے ہاتھوں توڑے اور مروڑے جانے کا خطرہ لاحق ہو، جب یہ بھروسہ نہ ہو کہ حکمراں بے بس شہریوں کا خیال رکھ سکتے ہیں، جب فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ اور عوام میں تفریق پیدا کرنے کے مقصد سے کسی ’دوسرے‘ کے بارے میں زہر انگیزی کی جاتی ہے، جب دفاتر اور سڑک کے کنارے بھی عصمت دریاں ہوتی ہیں، جب نام نہاد اساتذہ چھوٹے بچوں کے ذہن میں فرقہ واریت کا زہر گھولتے ہیں، جب انتخابات شفاف طریقے سے نہیں بلکہ مشکوک ہتھکنڈوں کے سہارے لڑے جاتے ہیں، جب امیدواروں کو انتہائی مشکوک طریقے سے متاثر کیا جاتا ہے، جب کسی کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں، جب مردوں کو بھی نہیں بخشا جاتا (کیونکہ قبریں اور قبرستان پر اراضی مافیا کی نگاہ ہوتی ہے)، جب سیاسی مافیا چاروں طرف انتشار پھیلانے اور لوٹ مار کر رہا ہوتا ہے… تو یقینی طور پر یہ کوئی ’ترقی یافتہ‘ ماحول نہیں ہے۔

جس طرح کی اشتعال انگیزی اس تحریر میں لائی گئی ہے وہ پیش آئے تکلیف دہ واقعات کے مشاہدہ پر مبنی ہے۔ فرقہ واریت کا زہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ چند روز قبل کی ہی بات ہے جب اس خبر نے توجہ اپنی طرف کھینچی کہ مدھیہ پردیش میں ایک ڈاکٹر نے ہندو مریض کو ایک شخص کا خون چڑھانے سے محض اس لیے منع کر دیا کیونکہ خون دینے والا شخص مسلمان تھا۔ اس ویڈیو نے بھی حیران کیا جو اتر پردیش سے سامنے آیا ہے۔ ویڈیو میں ایک اسکول ہیڈ ماسٹر/ٹیچر اپنے 7 سالہ مسلم طالب علم سے نفرت انگیز اور فرقہ پرستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ہر دن کوئی نہ کوئی نفرت انگیز اور فرقہ واریت پر مبنی واقعہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ افسوس کہ کوئی اسے روک بھی نہیں رہا۔


وادیٔ کشمیر سے کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں جو پریشان کرنے والی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کشمیر بھی دائیں بازو کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہا ہے۔ وہاں بھی دائیں بازو کے لوگ اپنے ایجنڈے کو پھیلا رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں جو کچھ دیکھنے کو ملا ہے، یہ حیرت انگیز بھی نہیں ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’کشمیر- دی انڈین ٹریجڈی، رپورٹس فرام دی فرنٹ لائنس‘ ان بدلے ہوئے حالات کی تفصیلات بیان کی تھی۔ 2019 میں شائع اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’’مجھے ان سنگین خدشات کی یاد آ رہی ہے جس کا تذکرہ کشمیریوں نے اس وقت کیا تھا جب پہلی مرتبہ وادی میں سینک کالونیوں کے قیام کی خبر سامنے آئی تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’وہ سینک کالونیوں کو ایک سازش اور منصوبہ کے تحت قائم کر رہے ہیں تاکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارکنوں کو وادی میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کریں۔ آنے والے سالوں میں ہم کشمیریوں کو یہاں وہاں دھکیل دیا جائے گا اور ان آر ایس ایس کیڈرس کو ہمارے علاقے دے دیے جائیں گے۔ دیکھو فلسطین میں کتنا بڑا سانحہ رونما ہو رہا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور اسرائیلیوں نے مکمل کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔‘ یہ بات ایک کشمیری نے کہی جس سے میں نے بات کی تھی۔‘‘

آج فلسطین اور عوام کی حالت کس قدر تکلیف دہ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہاں کی تصویریں کسی کو بھی رونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اداسی اور بے بسی اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ گزشتہ 10 ستمبر کو جب 40 فلسطینیوں کی ہلاکت سے متعلق تفصیلات سامنے آئیں اور فلسطینیوں کے خیموں و کیمپوں پر اسرائیلی بمباری جاری تھی، تو اس خبر نے نہ صرف صدمہ پہنچایا بلکہ ہر کسی کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

فسطایت کے اس دور میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے مارچ نکالنا اور جلسہ منعقد کرنا قطعی آسان نہیں۔ ہمارے سینکڑوں ہمدرد ساتھی فلسطین میں جاری نسل کشی سے غمزدہ اور پریشان ہیں، لیکن وہ اس غم کو اپنے دلوں میں دبائے رکھنے کو مجبور ہیں۔ پتہ نہیں کس دن بلڈوزر ایکشن کا حکم ہو جائے اور یہ جگہ بھی نہ رہے۔ کوئی بھی بہانہ بنا کر گھروں اور انسانی نفسیات کو کسی بھی وقت بلڈوز (منہدم) کیا جا سکتا ہے!


عالمی رہنما سینکڑوں اور ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کے جاری وحشیانہ قتل کو دیکھ کر نہ جانے کس طرح خاموش ہیں۔ مہلوکین میں مرد، خواتین و بچے سبھی شامل ہیں۔ زندہ چھوڑے گئے فلسطینی مکمل اذیت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انھیں نہ صرف پانی اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے، بلکہ متاثرین کو طبی امداد بھی میسر نہیں ہے اور کئی طرح کی بیماریاں و انفیکشن کی زد میں بھی ہیں۔

کیا آپ کسی بھی زاویہ سے اس منظرنامہ کو ترقی یافتہ دنیا تصور کریں گے یا پھر ایسا نام نہاد ترقی یافتہ دور کہیں گے جس میں رہنا ہمارا مقصود تھا! ان ہزاروں فلسطینیوں پر مکمل وحشیانہ حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ فلسطینی اکثر اوقات اسرائیلی فضائی حملوں اور بمباری میں موقع پر ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں، یا پھر خوراک-پانی اور زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات کی کمی کے سبب آہستہ آہستہ دردناک موت کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ زیتون اور پھلوں سے بھرپور اس زمین کو بھی ان فلسطینی شہریوں سے جبراً اور تشدد کے ذریعہ چھین لیا گیا ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔

حالات انتہائی فکر انگیز ہیں۔ شاید میرے تکلیف، درد، جذبات اور غم کو ظاہر کرنے کے لیے ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار مناسب ہوں گے:

مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے

مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے

کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو

غریبوں مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو

حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو

تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا

میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔