ایک اور ایچ آئی وی پازیٹو شخص کا ’کامیاب علاج‘

لندن کے ڈاکٹرز نے ایک ایچ آئی وی پازیٹو شخص کے جسم میں ایڈز کا باعث بننے والے وائرس کو کامیاب طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ قوی امید ہے کہ اب یہ شخص دوبارہ اس خطرناک وائرس میں مبتلا نہیں ہوگا۔

ایک اور ایچ آئی پازیٹو شخص کا ’کامیاب علاج‘
ایک اور ایچ آئی پازیٹو شخص کا ’کامیاب علاج‘
user

ڈی. ڈبلیو

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ لندن کے اس مریض کے جسم میں گزشتہ انیس ماہ سے ایچ آئی وی کے آثار نہیں دیکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انیس ماہ سے اس مریض کو کوئی دوا یا تھیراپی نہیں دی ہے، جس کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ وہ اب تندرست ہو چکا ہے۔ اس مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں میں اسے ’لندن کا مریض‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق محققین ایک میڈیکل کانفرنس میں اس کیس سے متعلق مزید معلومات فراہم کریں گے۔ دس برس قبل اسی طریقہ علاج کے تحت برلن میں ایک ایچ آئی وی پازیٹو شخص کا کامیاب علاج کیا تھا۔ ان دونوں کیسوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کا طریقہ کار استعمال کیا گیا، جو دراصل خون کے سرطان میں مبتلا مریضوں کا علاج قرار دیا جاتا ہے۔

اس علاج کے تحت کسی ڈونر سے تندرست سٹیم سیلز لیے جاتے ہیں، جو مریضوں کے جسم میں موجود متاثرہ خلیوں سے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ علاج کا طریقہ کار اور نتائج تحقیقی جریدے انٹرنیشنل سائنس جرنل ’نیچر‘میں شائع کیےگئے ہیں۔ سائنسی محقق روندر گپتا کے مطابق، ’دوسری بار وہی طریقہ استعمال کرنے سے اب برلن کا مریض غیر معمولی نہیں رہا‘۔

یہ اپنی طرح کی ایک نایاب جینیاتی تبدیلی ہے۔ وقت بدل رہا ہے، سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کارآمد تحقیق جینیاتی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں مریضوں میں یہ جینیاتی تبدیلی سٹیم خلیات کے ذریعے کی گئی۔ ایچ آئی وی پازیٹو کے مریض کے خلیات کو ایک تندرست انسان کے اسٹیم خلیات سے بدل دیا گیا جسے سی سی آر فائیو کا نام دیا گیا ہے۔

اس تکنیک سے مریض کے جسم میں ایچ آئی وی وائرس کو ختم کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سٹیم سیلز کی یہ تبدیلی بیماری سے مکمل بچاؤ کی ضمانت نہیں ہے۔ لندن کے اس مریض میں ایچ آئی وی کی تشخیص 2003 میں ہوئی تھی اور 2012 تک اس مریض پر اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ’اےآر وی‘ آزمائی گئی۔ یہ عمل اس وائرس کے اثر کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا تاہم یہ اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر پاتا۔ اس مریض کا بون میرو ٹرانسپلانٹ 2016 میں کیا گیا اور علاج روکنے سے پہلے سولہ ماہ تک اسے اس عمل سے گزارا گیا۔ انیس ماہ گزر چکے ہیں ابھی تک یہ مریض خطرے سے باہر بتایا جارہا ہے۔

سائنسی محقق روندر گپتا نے کہا کہ اس مریض کا جسم اب ایچ آئی وی سے بالکل صاف ہے، لیکن اس بارے میں حتمی رائے دینا ابھی قبل از وقت ہے کہ مسقبل میں بھی یہ ایسا تندرست ہی رہے گا۔ یہ دوسرا کامیاب مریض بھی معالجین کے لیے علاج کے مزید طریقے وضع کرنے مددگار ثابت ہوا ہے۔ تاہم یہ طریقہ علاج خطرناک، تکلیف دہ اور مہنگا بھی ہے۔ دنیا بھر میں موجود ایچ آئی وی کے مجموعی مریضوں میں سے صرف انسٹھ فیصد کو ’اےآر وی‘ جیسی سہولیات میسر ہیں۔ 1980 سے لے کر اب تک ایڈز کا مرض 35 ملین انسانوں کی جان لے چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Mar 2019, 6:30 AM