ایم پاکس: پہلے تشخیصی ٹیسٹ کی منظوری

’ایلینیٹی ایم، ایم پی ایس وی ایسے‘ مریض میں ایم پاکس کی نشاندہی کرنے والا پہلا ٹیسٹ ہے جس کے ذریعے جسم پر بنے چھالوں سے مواد لے کر اس میں ایم پاکس وائرس کا پتا چلایا جاتا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

مدیحہ فصیح

عالمی ادارہ صحت یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ہنگامی حالات کے لیے ایم پاکس کے پہلے تشخیصی ٹیسٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اس 'ریئل ٹائم پی سی آر ٹیسٹ' کی بدولت وبا کا سامنا کرنے والے ممالک میں مرض کو تشخیص کرنے کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ’ایلینیٹی ایم، ایم پی ایس وی ایسے‘ نامی ٹیسٹ کسی بھی موقع پر مریض میں ایم پاکس کی نشاندہی کرنے والا پہلا ٹیسٹ ہے جس کے ذریعے جسم پر بنے چھالوں سے مواد لے کر اس میں ایم پاکس وائرس کا پتا چلایا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ بیماری کا سامنا کر رہے ممالک میں جانچ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔ فی الحال، مریض جا یچ نتائج کا دنوں انتظار کرتے ہیں۔ تاہم، یہ ٹیسٹ مشتبہ کیسز کی زیادہ مؤثر طریقے سے تصدیق کرنے میں مدد کرے گا۔ اقوام متحدہ کی صحت کی ایجنسی نے واضح کیا کہ کانگو میں، جو موجودہ وباء کا مرکز ہے، اس سال صرف 37 فیصد مشتبہ کیسز کا تجربہ کیا گیا ہے۔ اس ٹیسٹ کی منظوری ایم پاکس وباء کا سامنا کر رہے ممالک میں فوری اور درست تشخیصی صلاحیت کو بڑھا دے گی۔

ایم پاکس ، جو انسان سے انسان کے رابطے اور متاثرہ جانوروں سے رابطے سے پھیلتا ہے، اس سال 16 افریقی ممالک میں پایا گیا ہے۔ افریقی یونین کے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کے مطابق، پورے براعظم میں 800 سے زائد افراد اس بیماری سے ہلاک ہو چکے ہیں، جو بخار، درد اور جلد کے زخموں یا چھالوں کا سبب بنتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’پسٹولر‘ یا ’ویسکولر‘ ریش کے نمونوں سے ڈی این اے کا پتہ لگا کر، ایم پاکس کے مشتبہ کیسز کی موثر اور مؤثر طریقے سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ افریقہ میں ٹیسٹنگ کی محدود صلاحیت اور ایم پاکس کیسز کی تصدیق میں تاخیر وائرس کے مسلسل پھیلاؤ میں معاون ہے۔


ڈبلیو ایچ او کے مطابق، ایمرجنسی یوز لسٹنگ (ای یو ایل) کے طریقہ کار کے تحت درج یہ پہلا ایم پاکس تشخیصی ٹیسٹ متاثرہ ممالک میں ٹیسٹنگ کی دستیابی کو بڑھانے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ علاوہ ازیں ایجنسی ہنگامی استعمال کے لیے تین نئے ایم پاکس تشخیصی ٹیسٹوں کا جائزہ لے رہی ہے اور ساتھ ہی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ایم پاکس تشخیصی ٹولز کی دستیابی بڑھانے کے لیے بھی بات چیت کر رہی ہے۔

اگست میں، ڈبلیو ایچ او کی جانب سے دو سالوں میں دوسری بار ایم پاکس کو عالمی صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دینے کے بعد، اس نے دواسازوں سے کہا کہ وہ ہنگامی جائزہ کے لیے اپنی مصنوعات جمع کرائیں۔ اس نے نوٹ کیا کہ افریقہ میں اس سال 14 ہزارسے زیادہ کیسز اور 524 اموات پہلے ہی پچھلے سال کے اعداد و شمار سے تجاوز کر چکی ہیں۔ تازہ ترین ایم پاکس وباء کانگو میں شروع ہوئی اور بعد میں پڑوسی ممالک بشمول برونڈی، یوگنڈا اور روانڈا میں پھیل گئی۔ اب تک، وائرس کی دو قسمیں پھیل رہی ہیں: کلیڈ 1 قسم، جو مغربی اور وسطی افریقہ کے کچھ حصوں میں مقامی ہے، اور کلیڈ 1بی،جو ایک نئی زیادہ متعدی قسم ہےجس نے بین الاقوامی تشویش کو جنم دیا ہے۔ ہندوستان، تھائی لینڈ اور سویڈن میں تمام کیسز ایم پاکس کلیڈ 1بی کے رپورٹ ہوئے ہیں۔


ایم پاکس کیا ہے؟ ایم پاکس ایک وائرل انفیکشن ہے جو بنیادی طور پر انسانوں اور جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس کی 'آرتھوپاکس وائرس جینس' کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ یہ عام طور پر پاکس جیسی بیماری کا سبب بنتا ہے، جس میں جلد پر ابھرے ہوئے دھبے یا چھالے شامل ہوتے ہیں۔ چھالے اکثر سیال یا پیپ سے بھرے ہوتے ہیں اور آخر کار سوکھ کر پرت بن سکتے ہیں اور ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

ایم پاکس ، دنیا سےمٹائے جا چکے چیچک سے ملتا جلتا ہے، اور دوسرے پاکس وائرس جیسے کاؤ پاکس اور ویکسینیا۔ ڈنمارک میں، 1958 میں بندروں میں پہلی بار پہچانے جانے پر اسے ’منکی پاکس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ 1970 میں، پہلا انسانی کیس کانگو میں نو ماہ کا لڑکا تھا۔ 2022 میں، ڈبلیو ایچ او نے بندروں کے ساتھ اس کے تعلق کو کم کرنے کے لیے اس کا نام ایم پاکس کرنے کی سفارش کی کیونکہ یہ بیماری چوہوں اور انسانوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ ایم پاکس وائرس کسی متاثرہ جانور یا شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔


جانوروں سے انسان میں منتقلی عام طور پر کسی متاثرہ جانور کے کاٹنے، خراشوں، یا خون، جسمانی رطوبتوں یا زخموں سے براہ راست رابطے کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان سے انسان میں منتقلی جلد کے زخموں، جسمانی رطوبتوں، یا متاثرہ شخص کی سانس کی بوندوں سے براہ راست رابطے کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ دوم، متاثرہ شخص کے ساتھ طویل عرصے تک رابطے کے ذریعے۔ تیسرا، آلودہ اشیاء کو چھونے سے، جیسے بستر یا کپڑے جو متعدی مواد کے ساتھ رابطے میں رہے ہوں، حالانکہ یہ ترسیل کا ایک نادر طریقہ ہے۔ یہ وائرس جلد، سانس کی نالی، یا آنکھوں، ناک اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔

ایم پاکس علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، اور ایک قسم کےمخصوص دانے شامل ہیں جو چہرے، ہاتھوں، پیروں اور جسم کے دیگر حصوں پر ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ریش یا ددورا بالآخر ٹھیک ہونے سے پہلے آبلوں اور خارشوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ ایک پسٹول ایک بڑے سفید یا پیلے رنگ کے پمپل یا مہاسہ کی طرح لگتا ہے۔ یہ جلد پر ایک چھوٹا، ابھرا ہوا آبلا ہے جو پیپ سے بھرا ہوا ہے۔ لمف نوڈس، سیم کی شکل کے غدود جو کہ مدافعتی نظام کا حصہ ہیں، وائرس سے لڑنے کی کوشش کرتے وقت بھی پھول سکتے ہیں۔ یہ بازوں کے نیچے بغل میں اور گردن کے اطراف اور پچھلے کے حصے میں واقع ہیں۔ غیر معمولی معاملات میں ایم پاکس انفیکشن مہلک ہوسکتا ہے۔ مجموعی طور پر انفیکشن دو سے چار ہفتوں تک رہ سکتا ہے۔ وائرس سے متاثر ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے میں تین سے 21 دن لگ سکتے ہیں۔ تاہم، ایک شخص علامات ظاہر ہونے سے ایک سے چار دن پہلے اس بیماری کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ ایم پاکس کی شناخت ریش سے نکلے ہوئے سیال کے نمونے کی جانچ کر کے کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ معتدل معاملات یہ خود ہی ٹھیک ہو سکتے ہیں، خاص طور پر ایم پاکس کے لیے کوئی منظور شدہ علاج یا ویکسین موجود نہیں ہے۔اگر کوئی شخص ایم پاکس متاثرہ کے سامنے یا رابطہ میں آجائے تو ویکسین لگوائے اور خود کو الگ تھلگ کر لے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔