ہم نے چيچک کا مقابلہ کیسے کیا؟

آج سے ٹھيک 40 برس قبل چيچک کی بيماری کے عالمی سطح پر خاتمے کا اعلان کيا گيا۔ کيا اس دوران اپنائی جانے والی حکمت عملی نئے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے ميں کار آمد ثابت ہو سکتی ہے؟

ہم نے چيچک کا مقابلہ کیسے کیا؟
ہم نے چيچک کا مقابلہ کیسے کیا؟
user

ڈی. ڈبلیو

انسانی تاريخ کے کئی ادوار ميں ہميں خطرناک بيماريوں اور عالمی وباؤں کا سامنا رہا ہے۔ ايسی ہی ايک مثال اسمال پاکس يا چيچک کی بيماری کی ہے۔ اس بيماری کا وائرس کئی صديوں تک دنيا کے متعدد خطوں ميں لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنا۔ ايک اندازے کے مطابق صرف 20 صدی ميں چيچک کی بيماری کے باعث قريب 3 سو ملين افراد ہلاک ہوئے تھے۔ چاليس برس قبل سن اسی میں آٹھ مئی کو بالآخر عالمی ادارہ صحت نے اسمال پاکس وائرس "واریولا" کے دنيا بھر سے خاتمے کا اعلان کيا۔ انسانوں کو کئی سال تک موت کے سائے تلے يرغمال بنا کر رکھنے والے اس وائرس کے خلاف کاميابی، ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے ايک غير معمولی اور کافی مؤثر ويکسينيشن پروگرام کی بدولت ممکن ہوا۔

اس سے قبل تک چيچک کی بيماری کا باعث بننے والے 'واريولا ميجر‘ نامی وائرس کی کسی مريض ميں تشخيص ہی موت کا سرٹيفيکيٹ سمجھی جاتی تھی۔ چيچک کے مريضوں ميں ہلاکتوں کا تناسب ساٹھ فيصد تھا۔ چند مريضوں ميں نسبتاً کم شدت والے 'واريولا مائنر‘ کی تشخيص بھی ہوا کرتی تھی۔ گو کہ ايسے مريضوں ميں ہلاکتوں کا تناسب کم تھا مگر بيماری عمر بھر کے ليے ان کے ليے ايک روگ ثابت ہوتی تھی۔ 1967ء ميں عالمی ادارہ صحت نے اپنے ويکسينيشن پروگرام ميں لچک پيدا کی اور اس پروگرام کو مختلف خطوں اور ملکوں کی مناسبت سے ترتيب ديا گيا۔ يہ نئی حکمت عملی اس قدر کارآمد و کامياب ثابت ہوئی کہ آج بھی اسے ماڈل کے طور پر ديکھا جاتا ہے۔


متاثرين تک ويکسين کی فراہمی ممکن بنانے کے ليے علاقائی حالات کو مد نظر رکھا گيا اور اس حساب سے تبديلياں متعارف کرائی گئيں۔ ويکسين لگانے يا دينے والے عملے کے ارکان لوگوں کے آبائی علاقوں تک گئے۔ گو کہ يہ خطرے سے خالی نہ تھا مگر مريضوں يا متاثرين کے ساتھ سماجی تعلقات رکھنے والوں تک بھی ويکسين پہنچانا لازمی تھی۔ چيچک کی وبا پر کنٹرول پانے ميں سب سے اہم بات اس بيماری کے وائرس کہ جلد تشخيص تھی۔ متاثرہ شخص کے جسم پر دانوں سے فوراً اس بيماری کا پتا لگ جاتا تھا۔ پھر يہ انفيکشن عموماً ايسے علاقوں ميں پھوٹتا تھا، جنہيں قرنطينہ کرنا آسان تھا۔

چيچک کے انسداد کے ليے بننے والی ويکسين باآسانی دنيا کے ہر حصے تک پہنچائی جا سکتی تھی۔ ايک اور اہم وجہ يہ بھی تھی کہ ويکسين کسی بھی انسان کے جسم ميں عمر بھر کے ليے وائرس سے لڑنے کی قوت مدافعت پيدا کر ديتی تھی۔ تين سو ملين ڈالر کی لاگت اور دو لاکھ سے زائد رضاکاروں کی مدد سے مجموعی طور پر دنيا بھر ميں قريب 2.4 ملين افراد کو چيچک کی بيماری سے پچاؤ کی ويکسين دی گئی۔ چيچک کا آخری کيس سن 1977 ميں صوماليہ ميں سامنے آيا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔