کشمیر میں ’دل بچاؤ‘، وہاٹس ایپ گروپ کی دھڑکنیں رُک گئیں

کشمیر میں انٹرنیٹ پر اگست کے اوائل سے جاری پابندی کے باعث وہاں سرگرم بارہ سو ڈاکٹروں پر مشتمل ’سیو ہارٹ کشمیر‘ نامی وَہاٹس ایپ گروپ گزشتہ چار ماہ سے ٹھپ پڑا ہوا ہے۔

کشمیر میں ’دل بچاؤ‘، وہاٹس ایپ گروپ کی دھڑکنیں رُک گئیں
کشمیر میں ’دل بچاؤ‘، وہاٹس ایپ گروپ کی دھڑکنیں رُک گئیں
user

ڈی. ڈبلیو

مواصلاتی نظام پر غیر معمولی پابندی سے قبل اس وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا ہزاروں افراد کا بر وقت اور مفت علاج ممکن ہوا کرتا تھا۔ محض اکیس ماہ کے اندر اندر اس گروپ کی مدد سے تین خطوں جموں، کشمیر اور لداخ میں تقریباً تیس ہزار مریضوں کے اڑتیس ہزار سے زائد ای سی جی کرائے گئے تھے۔ ان میں ایک ہزار ایسے مریض بھی شامل تھے جنہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا لیکن بر وقت طبی امداد کی فراہمی کے سبب ان کی جانیں بچا لی گئیں۔

کشمیری ڈاکٹروں پر مشتمل ''سیو ہارٹ کشمیر‘‘ نامی وَہاٹس ایپ گروپ نومبر دو ہزار سترہ کو اس مقصد سے قائم کیا گیا تھا تاکہ دل کے مریضوں کا بروقت اور مفت علاج ممکن ہو سکے۔ جموں و کشمیر میں چھوٹے بڑے ایک سو تیس ہسپتالوں کے تقریباً بارہ سو ممبران اس گروپ کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر عمران، ڈاکٹر عرفان بھٹ، ڈاکٹر ناصر شمس، ڈاکٹر مظفر زرگر، ڈاکٹر ریحانہ کونثر اور آفاق جیلانی جیسے ماہرین اس وَٹس ایپ گروپ کے ارکان ہیں۔


اس گروپ میں ڈاکٹر خواہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں، اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیا کرتے تھے جس سے مریضوں کا وقت پرصحیح علاج ہوا کرتا تھا۔ بھارت میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے پانچ اگست کی صبح کو اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں جموں و کشمیر کی داخلی خود مختاری اور ریاستی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد سے ہی وہاں 80 لاکھ سے زائد مقامی باشندے انٹرنیٹ، پری پیڈ موبائل فون، ایس ایم ایس اور وَہاٹس ایپ کی بنیادی سہولیات سے مسلسل محروم ہیں۔

جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ سے کشمیری عسکریت پسند مستفید ہوتے ہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کے اپنے فیصلے کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ کشمیر میں آزادی پسند اور پاکستان نواز قوتیں انٹرنیٹ کا استعمال بھارت کے خلاف مظاہروں کے لیے کرتے ہیں۔


کشمیر میں مواصلاتی نظام پر غیر معمولی پابندی سے قبل ایک مریض نے بھارت کے معیاری وقت کے مطابق نصف شب دو بجے اس وَہاٹس ایپ گروپ میں ایک ایس او ایس پیغام بھیجا۔ آسٹریلیا میں مقیم ایک کشمیری ڈاکٹر نے اس پیغام کو دیکھتے ہی کشمیر میں ایک ماہر قلب کو فوراً فون کیا اور مریض کے علاج میں بھی بر وقت رہنمائی کی۔ اس طبی مدد سے اس کی جان بچ گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ وثوق سے یہ بتانا مشکل ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کے نتیجے میں اب تک کتنے افراد کی جانیں گئیں ہیں۔

سری نگر میں قائم شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک ماہر قلب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''دل کے مرض میں سب سے زیادہ اہمیت وقت کی ہوتی ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا افراد کا بروقت علاج ممکن تھا، لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی سے کتنے افراد کی جانیں جا چکی ہوئیں ہیں۔‘‘


سری نگر کے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں ایک اور ہارٹ اسپیشلسٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر گروپ کے ممبران کے مطابق ان کا وَہاٹس ایپ گروپ اس وقت کسی کو بھی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

چار ماہ قبل عمر سلیم نامی ایک کشمیری ڈاکٹر نے ہسپتال کے باہر مریضوں کو درپیش مشکلات پر ایک بیان دیا تھا جس کے بعد انہیں عارضی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر یہ پیغام درج تھا: ''یہ احتجاج نہیں گزارش ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم کی احتیاطی حراست کے باعث اب ڈاکٹر میڈیا سے بات کرنے سے خوف زدہ ہیں۔


ماہر قلب ڈاکٹر ناصر شمس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سردیوں کے موسم میں دل، بلند فشار خون، ذیابیطس اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیو ہارٹ کشمیر وَہاٹس ایپ گروپ میں روزانہ پچاس سے زائد ای سی جی کرائے جاتے تھے اور بیس تا تیس ایسے افراد کا جنہیں دل کا دورہ پڑتا تھا، بر وقت علاج ممکن بنایا جاتا تھا۔

مشرق وسطیٰ میں قائم امریکن کانفرنس آف کارڈیا لوجسٹس اور انڈین کانفرنس آف کارڈیا لوجسٹس نے سیو ہارٹ کشمیر کے کام کی بہت ستائش کی تھی۔ کشمیری ڈاکٹروں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ایسے گروپوں میں معاشی ترجیحات شامل ہوتی ہیں لیکن سیو ہارٹ کشمیر ایک ایسی پہل تھی جس میں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا تھا اور اقتصادیات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔


کشمیر اور دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیری ڈاکٹروں پر مشتمل اس وَہاٹس ایپ گروپ کے ذریعے امراض قلب میں مبتلا افراد یا سینے میں درد محسوس کرنے والے عام لوگ منٹوں میں ماہرین قلب کے رابطے میں آجاتے تھے۔ اس سہولت کے نتیجے میں وہ بروقت علاج اور ماہرین قلب کے مشوروں سے مستفید ہوا کرتے تھے۔

تاہم گزشتہ ایک سو پینتیس روز سے کشمیری عوام انٹرنیٹ کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ مسلسل چار ماہ تک وَہاٹس ایپ سے دوری کی صورت میں انٹرنیٹ صارفین خودبخود گروپ سے بے دخل ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں لاکھوں کشمیری وَہاٹس ایپ گروپوں سے بے دخل ہوگئے ہیں۔


دوسری جانب سری نگر میں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اپنی ایک تازہ مفصل رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس پانچ اگست سے اب تک انٹرنیٹ پر جاری پابندی کے باعث کشمیری معیشت کو اٹھارہ ہزار کروڑ کی خطیر رقوم کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

یاد رہے کہ جموں و کشمیر میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈر اور سری نگر میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اور نیوروسائنس کے ایک مشترکہ جائزے میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا تھا کہ کشمیر میں بالغ آبادی کا چوالیس فی صد کسی نہ کسی ذہنی دباوٴ یا ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔