جاپانی بخار سے مرتے رہے معصوم، فائلوں میں اٹکی رہی دوا
جاپانی بخار کی بہتر دوا کم از کم 10 سال پہلے تلاش کرلی تھی اور اس کا کلینیکل ٹرائل بھی 6 سال پہلے کر لیا گیا تھا لیکن یہ دوا اب تک سرکاری فائلوں میں ’گھوم‘ رہی ہے
نئی دہلی: ہندوستانی سائنسدانوں نے جاپانی بخار کی بہتر دوا کم از کم 10 سال پہلے تلاش کرلی تھی اور اس کا کلینیکل ٹرائل بھی 6 سال پہلے کر لیا گیا تھا لیکن یہ دوا اب تک سرکاری فائلوں میں ’گھوم‘ رہی ہے اور علاج میں اس کا استعمال شروع نہیں ہو سکا ہے۔
فی الحال ملک میں جاپانی بخار کے مریضوں کو ’ڈاكسی سائیكلن‘ نامی دوا دی جاتی ہے۔ کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کی لیبارٹری نیشنل برین ریسرچ سینٹر (این بی آر سی) کے سائنسدان ڈاکٹر انربان باسو نے پایا کہ اعصابی نظام اور دماغی بیماریوں کے لئے پہلے سے استعمال کی جا رہی دوا ’منوسائیكلن‘ جاپانی بخار سمیت تمام قسم کے اكيوٹ انسیفلائٹس سنڈرم (اے ای ایس) میں زیادہ مؤثر ہے۔
جاپانی بخار ہندوستان کو چھوڑ کر دنیا کے دیگر ممالک سے اب ختم ہو چکا ہے۔ ملک میں یہ بنیادی طور پر اترپردیش تک محدود ہے جہاں گورکھپور ضلع سب سے زیادہ متاثر ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں آسام میں بھی اس کے کچھ معاملے سامنے آئے ہیں۔ اس بیماری سے ہر سال ملک میں سینکڑوں بچوں کی موت ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر باسو نے 'یواین آئی' سے بات چیت میں کہا کہ اس دوا کا لیبارٹریوں میں جانوروں پر تجربہ کرنے کے بعد لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی (كےجي ایم یو) میں کلینیکل ٹرائل بھی کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹیسٹ کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں اور اس کے بارے میں انڈین میڈیکل ریسرچ کو نسل (آئی سی ایم آر) کو بھی پیش کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اترپردیش حکومت کو بھی اس دوا کے استعمال اور اس ممکنہ فوائد کے بارے میں پورے اعداد و شمار اور کلینیکل ٹرائل کے نتائج سونپے گئے ہیں۔ اس کے بعد بھی اب تک اس کا استعمال شروع نہیں کیا گیا ہے۔
اگست 2012 سے مئی 2013 کے درمیان کے جی ایم یو میں ہوئے کلینیکل ٹرائل سے منسلک ایک ڈاکٹر نے 'یو این آئی' کو بتایا کہ ’ڈاکسی سائیکلن‘ کے مقابلے میں ’منوسائیكلن ‘کا پین ٹریشن بہتر ہے، یہ بہتر نيوروپروٹیكٹیو ایجنٹ ہے اور دماغ تک جلد پہنچ جاتی ہے۔’ منوسائیكلن ‘کی جانچ کے دوران پتہ چلا ہے کہ جاپانی بخار سے متاثر بچوں میں موت کے معاملے میں اطمینان بخش کمی رہی ہے اور بخار سے ہونے والے مستقل نقصان کو روکنے میں یہ دواکارگر رہی ہے۔ اس دوران یونیورسٹی کے پیڈیاٹرک سیکشن میں اے ای ایس 280 سے زیادہ کیس آئے تھے جن میں 30 بچوں کو جاپانی بخار ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں كلنيكل ٹرايل کے جو اصول ہیں ان کے مطابق طبی ٹرايل کے دوران ہونے والی ہر موت کے لئے معاوضہ دینا ہوتا ہے بھلے ہی اس کی وجہ ٹرائل کی دی جارہی دوا ہو یا کچھ اور۔ اس فارمولہ کی وجہ سے تجربہ آدھے میں ہی روکنا پڑا۔ اس کے باوجود این بی آرسی اور كےجي ایم یو نے اس وقت تک کئے گئے تجربہ کے نتائج کو ایک جنرل میں شائع کیا اور آئی سی ایم آر کو سونپا۔ انہوں نے صحت کی دیکھ بھال محکمہ کو بھی اس سلسلے میں پرزنٹیشن دیا، لیکن جاپانی بخار میں اس ادویہ کے استعمال کو شاید اس لئے منظوری نہیں دی گئی کہ اس تجربہ میں ان کے ساتھ شامل نہیں کیا گیا تھا۔
کے جی ایم یو کے ڈاکٹر نے بتایا کہ بعد میں آئی سی ایم آر کی ڈائریکٹر جنرل مشہور پیڈیاٹرک ڈاکٹر سومیا سوامي ناتھن نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر دوا کے تجربہ کی خواہش ظاہر کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ گورکھپور میں ہی اس کا ٹیسٹ ہو اور اس کے لئے وہاں کے ایک ہسپتال سے بات بھی کی گئی۔ لیکن،اسپتال چاہتا تھا کہ اس میں كےجي ایم یو بھی شامل ہو تاکہ معاوضہ کا بوجھ اسپتال پر نہ آئے. اس کی وجہ سے وہ کوشش بھی پروان نہیں چڑھ سکی۔ اس دوران ڈاکٹر سوامي ناتھن کی مدت ختم ہونے سے ایک بار پھر معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ تمام کوششوں کے بعد آئی سی ایم آر نے اپنی نگہداشت میں صرف اتنی تبدیلی کی کہ اس میں جاپانی بخار کے لئے’منوسائیكلن‘ کوبھی استعمال کر سکنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن ہدایات واضح نہیں ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔
این آر بی سي نے کے جی ایم یوکو سال 2009-10 میں ’منوسائیكلن ‘کے طبی ٹرائل کا پرزنٹیشن دیا تھا۔ اس کے بعد مجوزہ منصوبے کے بارے میں سائنس اور ٹیکنالوجی محکمہ کو اطلاع دی گئی. وہاں سے اجازت ملنے کے بعد ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا سے اجازت ملنے میں ڈیڑھ سال لگ گئے. اس کے بعد ’منوسائیكلن‘ کی سسپنشن تیار کرنے کی ذمہ داری ممبئی کی کمپنی’ يوني مارك ریمیڈيز‘ کو دی گئی۔ کمپنی نے سسپنشن تیار کرنے میں سوا سال کا وقت لگا دیا اور آخر کار اگست 2012 میں ٹیسٹ شروع ہو سکا.۔
این بی آر سی کے ڈاکٹر باسو نے بتایا کہ یہ دوا صرف جاپانی بخار ہی نہیں اے ای ایس زمرے کے تمام بخاروں کے لئے موثر ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Oct 2018, 1:09 PM