ڈی جے سے ہوشیار! تیز آواز سے شخص کے دماغ کی رگ پھٹنے کا حیران کن معاملہ آیا سامنے
ڈی جے کے بڑھتے رواج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر گپتا نے بتایا ہے کہ ایک صحت مند انسان 70 ڈیسیبل آواز کی شدت جھیل سکتا ہے لیکن ڈی جے سے نکلنے والی آواز کی شدت 150 ڈیسیبل سے زیادہ ہوتی ہے۔
چھتیس گڑھ میں ایک حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ڈی جے کی تیز آواز سے ایک شخص کی رگ پھٹ گئی اور اسے برین ہیمرج ہو گیا۔ شخص کو امبیکا پور ضلع کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں اس کی حالت کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے اسے رائے پور اسپتال ریفر کر دیا ہے۔ علاج کر رہے ڈاکٹروں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ڈی جے کی آواز سے اس کے سر کے پچھلے حصے کی رگیں پھٹ گئیں اور خون کا تھکّا جم گیا۔
اطلاع کے مطابق بلرام پور ضلع کے 40 سالہ سناول رہائشی سنجے جیسوال کو 9 ستمبر کو اچانک چکر آنے لگا اور قے بھی ہونے لگی۔ رشتہ داروں نے انہیں میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا جہاں ایئر نوز تھروٹ (ای این ٹی) محکمہ کے سینئر معالج ڈاکٹر شیلندر گپتا نے جب مریض کا سٹی اسکین کرایا اور رپورٹ دیکھی تو شخص کے سر کے پچھلے حصے کی رگ پھٹنے سے بلڈ کلاٹنگ ہونا پایا گیا۔ اس کی جانکاری میڈیکل کالج کے سینئر ڈاکٹروں اور میڈیکل پروفیسروں کو دی گئی۔
ڈاکٹر گپتا کے مطابق مریض سے پہلے کی بیماری کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ایسی کوئی بیماری نہ ہونے کی بات بتائی۔ مریض کو بی پی کی شکایت بھی نہیں تھی۔ وہیں اسپتال میں بھی اس کا بی پی نارمل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اب تک کا پہلا معاملہ ہے جو کہیں نہ کہیں فکر کی بات ہے۔ کیونکہ حال میں جس طرح سے مختلف تقریبات میں تیز آواز والے آلات جیسے ڈی جے وغیرہ کا رواج بڑھا ہے یہ کہیں نہ کہیں انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ڈاکٹر گپتا نے یہ بھی بتایا کہ ایک صحت مند انسان 70 ڈیسیبل آواز کی شدت جھیل سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ اس کے لیے نہ صرف نقصاندہ ہے بلکہ اس کے کان و دماغ کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ ڈی جے کی بات کی جائے تو اس میں سے نکلنے والی آواز کی شدت 150 ڈیسیبل سے زیادہ ہوتی ہے۔
مریض کے رشتہ داروں نے ڈاکٹر کو جانکاری دی کہ متاثرہ شخص ڈی جے کرایے پر دینے کا کاروبار کرتا ہے۔ جس دن طبیعت بگڑی اس دن اس نے ایک ڈی جے بجایا تھا۔ اسی وقت اسے قے اور چکر آنے کی شکایت ہوئی تھی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس شخص کی ایسی حالت ڈی جے کی آواز کی وجہ سے ہوئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔