حیرت انگیز! بہار کے سرکاری اسکولوں میں 90 فیصد لڑکیاں دن بھر پانی نہیں پیتیں
بہار کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی 90 فیصد لڑکیاں اسکول سے گھر لوٹنے کے بعد ہی پانی پیتی ہیں، وجہ یہ ہے کہ اسکولوں میں یا تو بیت الخلاء موجود نہیں، اور اگر ہے بھی تو بند ہے یا بے کار ہے۔
گزشتہ 28 فروری یعنی پیر کے روز بہار میں اسکول کھلے ہوئے تھے۔ اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہونے کا الزام سن کر وزیر اعلیٰ نتیش کمار جس وقت بہار قانون ساز کونسل میں ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے، اس وقت راجدھانی پٹنہ کی اے جی کالونی میں 1988 سے چل رہے مڈل اسکول میں کئی لڑکیاں ’نیچرس کال‘ (رفع حاجت) روکے شرما رہی تھیں۔ نیچرس کال بھی انہی لڑکیوں کو آیا تھا جو صبح کچھ کھا کر نگلنے کے چکر میں تھوڑا پانی پی کر چلی آئی تھیں۔ ورنہ تو سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی 90 فیصد لڑکیاں صبح سے پانی نہیں پیتی ہیں، گھر لوٹ کر ہی پیتی ہیں۔ کیونکہ یا تو سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں، اور ہے بھی تو بند یا بے کار ہے۔ نتیش کمار کو کمیونسٹ پارٹی کے ایم ایل سی اور ٹیچر لیڈر کیدارناتھ پانڈے نے جب اس سچ سے مطلع کیا تو وہ ناراض ہو گئے۔ ایک طرح سے نتیش کمار مشتعل ہو گئے۔ سب سے زیادہ بجٹ لینے والے وزیر تعلیم یا ان کے ماتحت افسروں کو نہیں بلکہ کیدارناتھ پانڈے کو ہی انھوں نے کہہ دیا کہ جن سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہے، ان کی فہرست بنا کر پیش کریں۔
2005 میں نتیش کمار نے لالو پرساد کے خلاف جن ایشوز کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخاب لڑا تھا، ان میں تعلیم کو زوال کی طرف دھکیلنے کا بھی الزام تھا۔ تب سے ابھی تک کچھ مہینوں کے لیے ہی نتیش کمار وزیر اعلیٰ کی کرسی پر نہیں رہے ہیں، بلکہ جب سے وہ اس کرسی پر بیٹھے ہیں، بیشتر وقت محکمہ تعلیم انھوں نے اپنی پارٹی جنتا دل یو کے حصے میں ہی رکھا ہے۔ بجٹ میں لگاتار محکمہ تعلیم کے مد میں زبردست اضافہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مالی سال 22-2021 میں یہ 38035 کروڑ کا تھا، تو اس بار 39191 کروڑ کا ہے۔ یعنی تعلیم پر پورا زور ہے۔ لیکن کافی حد تک اسے ’ بے جوڑ‘ ہی کہیں تو ٹھیک رہے گا۔
راجدھانی میں بھی کئی سرکاری اسکولوں کی اپنی عمارت نہیں ہے۔ قدم کنواں، کنکڑ باغ، شاستری نگر جیسے علاقوں میں ایک ہی اسکول کی عمارت میں کئی سرکاری اسکول چل رہے ہیں۔ اب جب عمارتوں کی حالت راجدھانی میں ایسی ہے تو بنچ ڈیسک یا بلیک بورڈ کی بات ہی بے معنی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آج بھی بورے پر بیٹھ کر پڑھنے یا امتحان دینے کی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں۔ اسی طرح کسی زمانے میں بنے بلیک بورڈ کمروں کے ساتھ مخدوش ہو کر سفید یا مٹمیلے ہوئے پڑے ہیں۔ اتنی خراب حالت میں ان پر چاک چلانا ممکن نہیں اور غلطی سے چل گیا تو اسے سمجھنا ریزننگ سلجھانے سے کم نہیں ہے۔ راجدھانی پٹنہ سے لے کر مشرقی چمپارن کی سرحد تک کہیں بھی ایسی مثالیں نظر آ جاتی ہیں۔ اور جب پڑھائی کی یہ بنیادی ضرورتیں نہیں پوری ہو رہی ہوں تو بیت الخلاء تک بات جاتی کہاں ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء کبھی بنے نہیں، یا اس کے لیے اب پیسے نہیں مل رہے۔ پریشانی یہ ہے کہ اسے کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ ہائی اسکولوں اور انٹر اسکولوں میں میٹرک و انٹر امتحانات ہوتے ہیں اور یہاں کے بچے سمجھدار ہو چکے ہوتے ہیں، سا لیے ان کی حالت کچھ حد تک کام چلاؤ ہے بھی۔ مڈل اسکولوں میں طلبا و طالبات کو اس کی ضرورت پڑتی بھی ہے تو وہ اساتذہ کے قبضے والے بیت الخلاء کو کھلوانے کی ہمت نہیں کرتے۔ جن اسکولوں میں بیت الخلاء بنے، وہ کچھ ہی وقت بعد یا تو ٹوٹ گئے یا بے کا رہو گئے۔ ایسے بیت الخلاء آج سے 30 سال پہلے بھی جس طرح بے کار ہوتے تھے، آج بھی اسی طرح بے کار ہی ہیں۔ کیونکہ بیت الخلاء کی صفایئ کے لیے کوئی انتظام کبھی نافذ ہی نہیں ہوا۔ منٹیننس پالیسی میں آج تک سرکاری اسکول کی عمارت لائے ہی نہیں گئے۔
کنکڑ باغ کے لوہیا نگر واقع ایک سرکاری اسکول احاطہ میں اچھی خاصی تعداد والے چار اسکول چل رہے ہیں۔ ان میں ایک گرلس مڈل اسکول بھی ہے۔ یہاں کی طالبات سے بات کی گئی تو انھوں نے مہینے میں 10 دن ساکول نہیں آنے کے کئی اسباب شمار کرا دیے۔ بتایا کہ ماہواری کے وتق وہ اسکول نہیں جاتیں کیونکہ بیت الخلاء موجود نہیں ہے۔ پیٹ تھوڑا بھی خراب ہو تو بھی اسکول نہیں جاتیں کیونکہ بیت الخلاء موجود نہیں ہے۔ جو ہے، اس میں ٹیچر جی کا تالا لٹکتا رہتا ہے۔ جس دن پانی پی کر آ گئیں، اس دن نیچرس کال پر سرکاری منصوبے سے ملی سائیکل سے ہی واپس گھر بھاگنا پڑتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔