طنز و مزاح: کیا قوم پرست ٹی وی اینکرس آرام فرما رہے ہیں؟… تقدیس نقوی
عوام کو ٹی وی اینکرس کے اس غیر متوقع سکوت کا احساس اس وقت زیادہ ہوا جب گزشتہ دنوں مبینہ ریپ کے ایک حساس سانحہ پر ان حضرات کی مسلسل خاموشی نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا۔
سوشانت کیس پرکئی مہینوں کی مسلسل عرق ریز رپورٹنگ، بالی ووڈ کی نشہ آمیز بے راہ روی پر بال کی کھال نکالنے والی تحقیقی مہمات سر کرلینے، ایک ادایکارہ کی سیاست کے انگنا میں دھمکی آمیز مکالمات کو سراہنے اور اب انہیں خود جنتا کی عدالت میں پیش ہونے کی مانگوں کے بعد ہمارے قوم پرست ٹی وی اینکرس کو ایک وقفہ لیکر تھوڑا آرام کرنے کی ضرورت بہت شدت سے محسوس ہو رہی تھی، جو اب انھوں نے موقعہ پاتے ہی حاصل کرلی ہے۔
عوام کو ٹی وی اینکرس کے اس غیر متوقع سکوت کا احساس اس وقت زیادہ ہوا جب گزشتہ دنوں مبینہ ریپ کے ایک حساس سانحہ پر ان حضرات کی مسلسل خاموشی نے بے حسی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ کم ازکم نربھیا کیس کی طرح اس کیس میں بھی ہمارے فاضل اینکرس متاثرہ کو ہی مورد الزام ٹہراتے ہوئے اپنی تحقیقاتی مہم شروع کر دیں گے اور بہت جلد ملزمان کو بری قرار دے دیں گے۔ مگر اس بار نہ جانے کیوں کوئی جانچ پڑتال کیے بغیر ان مسلسل بولتے رہنے والے گروہ نے مکمل طور سے چپ سادھ لی اور بے شرمی کی چادر سے منہ ڈھانپ کر سوگئے۔
ملک کے کچھ سر پھرے ایکٹیوسٹ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک میں ہوئے پے در پے ریپ اور تشدد کے ان واقعات پر ٹی وی اینکرس کی یہ مجرمانہ خاموشی بہت پر اسرار اور معنی خیز ہے۔ جبکہ ان سانحوں پر ملک بھر میں بے انتہا غم وغصہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر ایک خاتون ایکٹیوسٹ نے تو اپنا غم وغصہ ایک ٹی وی چینل کے بیک روم میں پڑے سو رہے ایک اینکر پر اتارتے ہوئے ان سے اس سکوت کی وجہ دریافت کرنے کی ہمت کر ڈالی۔ خاتون نے ان سے ڈائریکٹ سوال کیا۔ ’’کیوں جناب کیا موقعہ واردات کے تمام راستے آپ لوگوں کے لئے بھی بند کر دیئے گئے ہیں؟“
پہلے توان اینکرس صاحب نے نیند میں بڑبڑاتے ہوئے کہا، ’’یارجانے دیں، ہمیں تھوڑا آرام بھی کرنے دیں، ہم کون سا اپنی مرضی سے بولتے ہیں جو اب اپنی مرضی سے خاموش ہوگئے ہیں، یہ سب کچھ اوپر سے کنٹرول ہوتا ہے‘‘۔ مگر پھرآنکھیں کچھ کھل جانے پر اپنی بات بناتے ہوئے موصوف کہنے لگے۔ ’’اوپر سے ہمارا مطلب ہے یہ سب کچھ اوپر والے کی مرضی سے ہو رہا ہے یعنی یہ سب ’ایکٹ آف گاڈ‘ ہے۔ اس میں بھلا ٹی وی والے کیا کرسکتے ہیں‘‘۔
’’تو کیا یہ سانحہ اتنا بھی قابل ذکر نہیں تھا جتنا بالی ووڈ کی مبینہ سرورآگیں پارٹیز تھیں جن کی تفصیلات دیکھتے دیکھتے لوگوں کو سرور آنے لگا تھا‘‘۔
’’آپ لوگ کچھ سیاسی پارٹیز کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی بات کا بتنگڑ کیوں بنا رہے ہیں؟ کیا ملک میں کسی ریپ کا واقعہ پہلی بار ہوا ہے؟‘‘ ٹی وی اینکر صاحب اپنے بستر استراحت پر سنبھل کر بیٹھتے ہوئے الٹا سوال کرنے لگے۔
’’تو اگر ریپ کے واقعات اس ملک میں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور حکومت ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے تو وہ لوگ اس کا کھل کر اقرار کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ کے چینل پراس کا ڈی این اے نہیں ہونا چاہیے؟‘‘ ایکٹیوسٹ نے بھی اینکرس صاحب کو گھیرتے ہوئے سنجیدہ سوال داغ دیا۔
‘‘دیکھیے میڈم جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ اس سلسلہ میں اپنا کام بخوبی کر رہی ہے۔ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں سوال پوچھ سکتا ہے۔ اب یہ کوئی سوشانت کیس جیسا ارجنٹ معاملہ تو ہے نہیں جس کے لئے پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن تک انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ بھلا اتنے معمولی کیس کے لئے سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت تھی؟ مبینہ ریپ پر واویلا مچانے کے مقابل کورونا سے بچنے کے لئے سوشل ڈسٹنسنگ رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ حکومت کی یہی کوشش تھی کہ کوئی ایک بھی کورونا کا کیس اس موقعہ واردات کے گردو نواح سے نہ نکل آئے، جس کے باعث پوری دنیا میں ہمارے ملک کی بہت بدنامی ہونے کا احتمال تھا۔ اس ریپ کا پورا معاملہ ایک بین الاقوامی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد ہمارے ملک کو بدنام کرنا ہے۔ اسی باعث ہم لوگوں نے بھی اس معاملہ سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی‘‘۔ اینکر نے اپنے لہجہ میں تھوڑی نرمی لاتے ہوئے اپنی تقریر جاری رکھی۔
’’آپ خود ہی بتائیں ایسی صورت حال میں ہم ٹی وی والوں کا یہاں بھلا کیا رول رہ جاتا ہے؟ اسی لئے ہم لوگوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ جب تک سوشانت راجپوت جیسا کوئی اور حساس اور اہم قومی مسئلہ قوم کے سامنے نہ آئے ہمیں تھوڑا وقفہ لے لینا چاہیے۔ بس اسی لئے ہم آج کل تھوڑا شانت نظر آرہے ہیں۔ آپ لوگوں کو ہمارا یہ تھوڑا آرام کرنا بھی ہضم نہیں ہو رہا اور معمولی سے مقامی واقعہ کو لیکر اتنا شور شرابا کر رہے ہیں۔ رہی بات ریپ سے متعلق کسی کیس پر ہماری رپورٹنگ کی، تو یہ کیس ملک کا کوئی آخری کیس تھوڑی ہے۔ زندگی ہے تو کل کوئی نیا کیس ہاتھ آہی جائے گا۔ اس کے لئے آپ لوگ زیادہ فکرمند نہ ہوں ہمارا ملک اس سلسلہ میں بہت خود کفیل ہے‘‘۔ فاضل اینکرس صاحب نے بھی اپنی اینکری کے سارے داو پیچ استعمال کرتے ہوئے اپنی خاموشی کی حمایت میں اپنے سارے دلائل دے ڈالے۔
’’اگر یہ سانحہ اتنا ہی معمولی تھا تو پھر آپ لوگ اپنے چینل پر اس نعرہ ’’بیٹی پڑھاؤ- بیٹی بچاؤ‘‘ کی تشہیرکرنا کیوں نہیں بند کردیتے؟ کیا یہاں ملک کی اس معصوم بے خطا بیٹی کو بچانے کی کسی کی ذمہ داری نہیں تھی؟‘‘ ایکٹیوسٹ خاتون نے بھی پوری شدت سے اپنے موقف کی وضاحت کی۔
’’میڈم کس کو بچانا ہے اور کس کو نہیں، یہ کام ہم ٹی وی اینکرس کا ہے۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں ہوئے اس کیس پر حکومت کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک ودھایک نے ’’بیٹی پڑھاؤ‘‘ نعرہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ اگر والدین اپنی لڑکیوں کو اپنے سنسکار کی صحیح تعلیم اپنے گھروں پر ہی دینے لگیں تو ملک میں ریپ کے واقعات ختم ہو جائیں گے۔ اب اگر والدین ہی اپنی بیٹی کو سنسکار نہیں سکھائیں گے تو ریپ کے واقعات تو اسی طرح ہوتے ہی رہیں گے‘‘۔اینکرصاحب اب کھل کر حکومت کے موقف کی تائید کر رہے تھے۔
’’تو اس طرح بیٹی بچانے کی ذمہ داری بھی والدین کی ٹہرائی جائے گی؟‘‘ خاتون ایکٹیوسٹ نے بھی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑا۔
’’بھئی جہاں ضرورت پڑتی ہے بیٹی بچانے کے لئے فوری اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔ اب ایک اداکارہ کا معاملہ ہی لے لیں۔ ابھی اس محترم اداکارہ کو کوئی خطرہ بھی نہیں تھا پھر بھی اس کے لئے وائی سیکورٹی کا انتظام کر دیا گیا۔ کیا یہ اداکارہ ملک کی بیٹی نہیں ہے؟ اب اس سے زیادہ ’’بیٹی بچاو‘‘ کی روشن اور قابل تقلید مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘
یہ بھی پڑھیں : ہندوتوا سیاست کا شکار خود ہندو سماج… ظفر آغا
اینکرس صاحب ایک ماہر سیاستداں کی طرح ’’چت بھی اپنی- پٹ بھی اپنی‘‘ کا گُر استعمال کرتے ہوئے آنکھیں موند کر ایک بار پھر خرانٹے لینے لگے۔ یہ دیکھتے ہوئے ایکٹیوسٹ خاتون وہاں سے اٹھ کر ایک دوسرے ٹی وی چینل کے بیک روم میں پہنچ گئیں۔ وہاں یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ہر اینکر کے ہونٹوں پر ایک ٹیپ لگی ہوئی ہے جس پرتحریرتھا۔ ’’تکنیکی وجوہات کے باعث آپ کی خدمت سے معذور ہیں‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔