فلم ریویو: ہندوستانی نوجوانوں کی حقیقی تصویر پیش کرنے والی فلم ’وائی چیٹ انڈیا‘
یوم جمہوریہ کے موقع پر حب وطنی پر مبنی فلموں کے سیلاب کے درمیان ریلیز ہونے والی ’وائی چیٹ انڈیا‘ ایک ایسی فلم ہے جو ہندوستانی نوجوانوں کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔
’سیریل کِسر‘ کے طور پر شہرت حاصل کر چکے عمران ہاشمی کو ایک سنجیدہ کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا ایک الگ ہی احساس ہے۔ عمران ہاشمی اداکار کے طور پر مجھے زیادہ پسند نہیں رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے وہ قابل تعریف کام کر رہے ہیں اور ایک اداکار کے طور پر انہوں نے بہترین کام کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ کردار کا انتخاب دانش مندی کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں فلم ’وائی چیٹ انڈیا‘ کی، جس کے اردو معنی ہیں ’ہندوستان سے دھوکہ کیوں‘۔ ہمارے نظام تعلیم پر مبنی کوئی مثبت یا سنجیدہ فلم بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کمرشیل ہندی فلموں میں اگر اسکول یا کالج دکھایا بھی جاتا ہے تو اس میں کوئی بہترین سا کیمپس ہوتا ہے جیاں طلبا تقریباً پکنک منانے آتے ہیں اور رومانس کرتے پھرتے ہیں۔ ’وائی چیٹ انڈیا‘ نظام تعلیم کو دھیان میں رکھ کر بنائی گئی ہے اور اس میں وہ سب باتیں نہیں ہیں کو اسکول کالجوں والی بالی ووڈ کی عام فلموں میں ہوتا ہے، لہذا فلم بنانے پر ہی اس کے تخلیق کار تعریف کے حقدار ہیں۔ اس کے بعد رائٹر اور ڈائریکٹر نے بھی اس حساس فلم کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
پڑھانے کے طریقہ کار پر عامر خان کی اداکاری والی ’تارے زمین پر‘ اور ’تھری ایڈیٹس‘ جیسی مثبت فلمیں بنانا پھر بھی آسان ہے لیکن موجودہ نظام تعلیم پر تبصرہ کرنا یا پھر اسے اسی انداز میں پیش کرنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسا اس لئے کیونکہ موجودہ نظام تعلیم کی وجہ سے طلبا کے سامنے آج اتنے چیلنجز موجود ہیں کہ ان کا پڑھائی جاری رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ سب کچھ اتنا جھولدار ہے کہ ڈگری حقیقی قابلیت نہ ہو کر محض قابلیت کی علامت بن کر رہ گئی ہیں۔ اتنی پیچیدگیوں کے ساتھ بھلا فلم بن سکتی ہے!
’وائی چیٹ انڈیا‘ اس حوالہ ایک بہتر فلم ہے کہ یہ موجودہ نظام پر کوئی فیصلہ نہیں دیتی (کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ فلم میں امتحان کے دوران نقل کرنے کو جائز ٹھہرایا گیا ہے) بلکہ یہ اس نظام کو مختلف زاویوں سے پیش کرتی ہے۔
عمران ہاشمی کچھ سالوں سے منفی اور کثیر رخی کردار ادا کر رہے ہیں اور اس فلم میں وہ ایک نقل کروانے والے کوچنگ سینٹر کے مالک بنے ہیں اور انہوں نے بہترین کام کیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم کرداروں کو مؤثر طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔ اینٹی ہیرو، بدعنوان سیاسدان، ایماندار سرکاری ملازم، بے ایمان سرکاری افسر، متوسط والد جو اپنے بیٹے بیٹیوں کے تئیں اپنا نظریہ ان کی پیشہ ورانہ کامیابی کے مطابق تبدیل کرتے رہتے ہیں، ان سبھی کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ تمام کردار اس اصل زندگی سے وابستہ نظر آتے ہیں جہاں زیادہ بولا نہیں جاتا اور الفاظ کے درمیان صرف خاموشی کو محسوس کیا جاتا ہے۔
’لڑکا اور کچھ نہیں کرے گا تو پکوڑے تو بیچ ہی لیگا‘، ’کیا نیتا چننے کا انٹرنس ہوتا ہے؟‘ ایسے ڈائیلاگ ظاہر ہے اس نوجوان نسل میں فوری مقبول ہو جائیں گے جو پہلے سے ہی امتحانات کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں۔ ’اگنی‘ گروپ کے اہم گلوکار کو برسوں کے بعد سننا خوش نما احساس تھا۔ ’آج کل کے بچے تیاری کر رہے ہیں نا...‘ ایک اچھا اور دل کو چھو جانے والا گانا ہے جو دیر تک کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔
حالانکہ فلم کی اس بات پر تنقید کی جا سکتی ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ اس شخص کے لئے آپ کے اندر ہمدردی پیدا کرتی ہے جو نقل کا نیٹورک چلا رہا ہے۔ کیونکہ وہ خود اسی نظام تعلیم اور کامیابی کے ان میعاروں کا پروڈکٹ ہے جسے متوسط طبقہ برسوں سے پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے۔ فلم کا ماحول ہماری نوجوان نسل کے لئے ایک اداسی لئے ہوئے ہے جو دل کو نمناک بنا دیتا ہے۔
حالانکہ یہ فلم کوئی ماسٹر پیس تو نہیں ہے لیکن دلچسپ ضرور ہے اور آج کے ماحول میں جہاں ویاپم جیسے گھوٹالہ کا کوئی سرا نہیں مل پایا، ایک جرأت مندانہ کوشش ہے۔ ایک بار ضرور دیکھئے، امید ہے کہ فلم آپ کو بھی پسند ضرور آئے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔