شیواجی کے ساتھ ساورکر کا ذکر! وزیر اعظم کے معافی مانگنے پر سوال... اعظم شہاب

وزیر اعظم مودی کے ذریعے شیواجی کے ساتھ ساورکر کے ذکر نے ریاست میں ایک بار پھر ساورکر کا موضوع چھیڑ دیا ہے۔ مودی کی معافی کے بعد سے ساورکر کے معافی نامہ پر خوب باتیں ہونے لگی ہیں

<div class="paragraphs"><p>شیواجی کی مورتی کے&nbsp;سامنے سر جھکاتے وزیر اعظم مودی / آئی اے این ایس</p></div>

شیواجی کی مورتی کےسامنے سر جھکاتے وزیر اعظم مودی / آئی اے این ایس

user

اعظم شہاب

اجیت پوار جو کبھی مہاراشٹر میں بی جے پی کے مدمقابل ہوا کرتے تھے اب اس کی صف میں شامل ہیں۔ جب انہوں نے شرد پوار سے بغاوت کر کے فڑنویس سے ہاتھ ملایا تو لوگوں نے ان کی باتوں پر توجہ دینا کم کر دیا، جس کا واضح ثبوت لوک سبھا الیکشن میں انہیں ملنے والی ناکامی ہے۔ ان پر خود ان کے آبائی وطن بارامتی کے لوگوں نے بھروسہ نہیں کیا، جہاں اس سے قبل ان کی طوطی بولا کرتی تھی۔ لوگوں نے ان کی باتوں پر بھروسہ کرنا تو دور، کان دھرنا تک بند کر دیا ہے۔ مگر مالون میں شیواجی کا مجسمہ گرنے کے بعد راجکوٹ قلعہ میں جا کر انہوں نے جو معافی مانگی، وہ نہایت ہی مناسب اور برمحل تھی۔ ان کے بیان میں کوئی داؤ پیچ نہیں تھا۔ انہوں نے صاف طور سے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر ’میں مہاراشٹر کے 13 کروڑ عوام سے معافی مانگتا ہوں۔‘

دوسری جانب مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے تھے، جنہوں نے اس واقعے کی ذمہ داری پہلے ہواؤں کی رفتار پر ڈالی اور پھر نیوی کے سر اس کا ٹھیکرا پھوڑ کر گویا اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ مجسمہ نصب کرنے والے کنٹریکٹر چیتن پاٹل اور مجسمہ ساز جے دیپ آپٹے تک نیوی کے افسران ان کی ہی حکومت کے ایک وزیر کے معرفت پہنچے تھے۔ ان کے اس غیر سنجیدہ رویے نے مہاراشٹر کے عوام کو مزید مشتعل کر دیا۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ساحلی علاقوں میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار اور پرتاپ گڑھ قلعہ میں ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے افتتاح کئے ہوئے شیواجی کے مجسمہ کی تصویر شیئر کرنی شروع کر دی، جس پر ہواؤں کی رفتار کا آج تک کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ آخرکار جب دہلی میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے شندے کی نکیر کی تو تین چار دن بعد انہوں نے معافی مانگی۔ لیکن اس معافی سے قبل ان کے بیان سے مہایوتی کو جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔


اب بچے ریاست کے دوسرے نائب وزیر اعلیٰ اور انتہائی فرض شناس وزیر داخلہ جناب دیویندر فڑنویس صاحب۔ ان کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنے بارے میں غلطیوں سے مبرا ہونے کا پورا یقین رکھتے ہیں۔ یہ ان کا خاص وصف ہے کہ وہ کبھی بھی کسی چیز میں اپنی غلطی نہیں مانتے اور اسی لئے وہ معافی مانگنے، اپنی بات سے رجوع کرنے یہاں تک کہ افسوس وغیرہ کے اظہار جیسی ’فضولیات‘ سے بھی بالکل دور رہتے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی معذرت نہیں کی ہے۔ اب جب کہ اس تعمیراتی کام کے ٹھیکیدار چیتن پاٹل کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور خود ساختہ مجسمہ ساز جے دیپ آپٹے تک پولیس نہیں پہنچ پا رہی ہے تو اس بابت فڑنویس سے سوال کیا جانے لگا ہے، کیونکہ محکمہ پولیس کی کمان ان کے ہی ہاتھوں میں ہے۔ لیکن یہ سوال ذرا دھیمے سروں میں اٹھ رہا ہے کیونکہ سوال کرنے والوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ ’اربن نکسل‘ نہ قرار دے دیئے جائیں۔ کیونکہ ان کے پاس کسی کو کچھ بھی کہنے کی آزادی ہے، مگر لوگوں کو ان سے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اجیت پوار نے صاف الفاظ میں معافی مانگی، ایکناتھ شندے نے دہلی کی ہدایت پر تاخیر سے ہی سہی پر معذرت کی مگر فڑنویس کو ابھی تک اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے۔

اب بات وزیر اعظم مودی کی کہ جنہوں نے 31 اگست کو ممبئی میں معافی مانگی۔ لیکن معافی مانگتے ہوئے انہوں نے بلاوجہ اس معاملے میں ساورکر کو گھسیٹ کر اس کو سیاست سے بھی آلودہ کر دیا۔ جبکہ سوشل میڈیا پر ان کی معافی کی جو کلپ وائرل ہے، اسے دیکھ کر شاید ہی کوئی اسے معافی قرار دے۔ سوال یہ ہے کہ شیواجی کا مجسمہ گرنے کا ساورکر سے کیا تعلق؟ کیوں مودی نے اس واقعے کو سیدھے طور پر معافی مانگنے کے بجائے اس میں ساورکر کا حوالہ جوڑ دیا؟ سچائی یہ ہے کہ اس معاملے میں ساورکر کا نام بلا وجہ گھسیٹ کر مودی نے شیواجی کی پرستش کی حد تک تکریم کرنے والوں کی ناراضگی مزید بڑھا دی۔ جبکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمہ کے گرنے کی تمام تر ذمہ داری مودی اور ان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے اس منصوبے کو بغیر کسی تجربے کے، محض سیاسی فائدے کے لئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے پر ساورکر کو بیچ میں لانا ضروری تھا؟ شاید نہیں۔ لیکن مودی نے یہی کیا اور یوں اپنی معافی کو بھی ایک سیاسی ایونٹ بنا دیا۔


وزیر اعظم مودی کے ذریعے شیواجی کے ساتھ ساورکر کے ذکر نے ریاست میں ایک بار پھر ساورکر کا موضوع چھیڑ دیا ہے۔ مودی کی معافی کے بعد سے مراٹھی سوشل میڈیا پر ساورکر کے معافی نامہ سے لے کر تحریک آزادی کو ان کے ذریعے نقصان پہنچانے تک کے واقعات پر خوب باتیں ہونے لگے ہیں۔ مودی نے ساورکر کو اگر ’مہان سپوت‘ اور ’مہان دیش بھکت‘ کہہ کر کانگریس کو مطعون کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو گاندھی کے قتل کے ضمن میں ساورکر کا ذکر بھی نہ چھڑتا اور لوگ یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ ’چھترپتی شیواجی مہاراج کا موازنہ ساورکر سے کرنا بالکل مناسب نہیں ہے۔ ایسا کرنے والے مودی کی ہم مذمت کرتے ہیں‘۔ اگر ساورکر کو زبردستی شیواجی کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش نہ ہوئی ہوتی تو ناسک کے اس وقت کے انگریز کلکٹر جیکسن کے قتل میں ساورکر کی شمولیت کا ذکر ایک بار پھر نہیں چھڑتا، جسے مراٹھی مورخین نے شیواجی کا پرستار بتایا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اگر نریندر مودی نے مالون کے واقعے پر اجیت پوار کی مانند صاف اور واضح الفاظ میں معافی مانگ لی ہوتی اور اس میں زبردستی ساورکر کو نہ گھسیٹا ہوتا تو شاید اپوزیشن کی جانب سے مودی کی معافی کو ایک ڈھونگ قرار نہ دیا گیا ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔