دلیپ کمار کے ساتھ ’جذبات‘ کے ایک دور کا خاتمہ

دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ دلیپ کمار اور یوسف خان میں بڑا فرق ہے، بقول ان کے یوسف خان تو دلیپ کمار سے بہت زیادہ گھبراتا ہے!

شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار / تصویر آئی اے این ایس
شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

شہنشاہ جذبات ہندوستانی فلمی دنیا کے بےتاج بادشاہ دلیپ کمار ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ آ ج صبح وہ دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ کئی ماہ سے بہت زیادہ بیمار تھے اور اس دوران کئی مرتبہ اسپتال میں داخل رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک ایک دور کا اختتام ہو گیا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ایک بہترین انسان بھی تھے جن کی ہر شخص عزت کرتا تھا۔

دسمبر میں ان کی 98 ویں سالگرہ کے موقع پر قومی آواز نے یو این آئی کا ایک مضمون شائع کیا تھاجس میں معروف اداکار دھرمیندر نے ذکر کیا تھا کہ دلیپ کمار ان کے بھائی تھے صرف فرق یہ تھا دونوں نے الگ الگ ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا ورنہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ دلیپ کمار کی آٹو بائیو گرافی میں ان کے بارے میں جتنے افراد نے الگ سے مضامین لکھے ہیں، ان کی اکثریت غیر مسلم پر مشتمل ہے اور وہ دلیپ صاحب کو فلمی دنیا کا ایک اہم ستون سمجھتے ہیں۔


دلیپ کمار نے لتا منگیشکر کو ہمیشہ اپنی چھوٹی بہن بتایا اور وہ اکثر راکھی باندھنے پالی ہلز پر دلیپ کمار سے ملاقات کے لیے جاتی تھیں اور آخری وقت تک ان کی خیریت دریافت کرتی رہیں۔ دلیپ کمار کے قریبیوں میں وی بابا صاحب، امیتابھ بچن، جیابچن،مہیش بھٹ، چندرشیکھر، یش چوپڑہ، دھرمیندر، ستارادیوی، سبھاش گھئی، ڈاکٹر سرکانت گوکھلے، سنیل کپور، رشی کپور، منوج کمار، ہیمالنی، لتامنگیشکر، نندہ، بکل پٹیل، پیارے، ہیرالال، ہریش سالوے، رمیش سپی، وجنتی مالا وغیرہ شامل تھے۔

اس فہرست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹ کے ممبر اور تاجر آصف فاروقی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے تیس سالہ تعلقات کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ دلیپ صاحب نہ صرف سیاسی بلکہ زندگی کے اس سفر میں بھی ان کے بھر پور رہنما رہے۔ انہوں نے ہی مجھے مشورہ دیا تھا کہ سماجی بہبود کے کام سے ابتداء کروں، اسی سے سماج کی ترقی ہوتی ہے۔ صرف نام بلند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب سے بڑا سبق تھا، جو دلیپ کمار سے سیکھا تھا۔


انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب 1994 میں آنجہانی سنیل دت نے اخلاقی بنیاد پر اپنے پارلیمانی حلقہ انتخاب سے استعفیٰ دینا چاہا تھا تو دلیپ کمار نے اس کی مخالفت کی تھی۔ سنجے دت کی گرفتاری کی وجہ سے سنیل دت ذہنی طور پر پریشان تھے مگر دلیپ کمار ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے نظر آئے اور انہیں کسی بھی انتہائی قدم کے اٹھانے سے روکتے رہے۔

آصف فاروقی کے مطابق لیپ کمار کو دنیا نے افسانوی شخصیت اور سپر اسٹار جیسے خطابات اور القاب سے نوازا لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے سچے علمبردار تھے۔ انہیں ایک سچا انسان، عزت دار، جذباتی اور غیرمفاد پرست شخص کہہ سکتے ہیں۔ یہ فخر کی بات ہے کہ ہم دونوں کی تین دہائیوں کی وابستگی رہی اور اس پر فخر کرنا لازمی ہے۔


انہوں نے کہاکہ ان کے ایک دوست ڈاکٹر زبیر کے بھی دلیپ کمار سے اچھے مراسم تھے۔ ڈاکٹر زبیر چاہتے تھے کہ آصف بھی ان کے ساتھ دلیپ کمار سے سے ملنے آئیں لیکن ہچکچاہٹ تھی کیونکہ ان کی فلمی دنیا میں خاص دلچسپی نہیں تھی اور وہ ایک ایسے خاندان سے ہیں جس میں مذہب، روایت اور کفایت شعاری کے پہلو غالب تھے، وہاں فلمی دنیا کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ فلمیں اگر دیکھی بھی جاتی تھیں تو نہایت ڈھکے چھپے انداز میں، ان تمام چیزوں کے باوجود ڈاکٹر زبیر کے اصرار پر راضی ہو گئے، ہمت کر کے وہاں پہنچ گئے۔ اس ملاقات نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور ایک ایسے رشتہ کی بنیاد بنی جو 30 سال بعد بھی مضبوطی سے قائم رہا۔ پھر یہ سلسلہ آگے بڑھ گیا اور دلیپ کمار اور یوسف خان کی شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہونے لگے۔ دلیپ کمار وہ شخصیت ہے جس کی مقبولیت عوامی سطح پر پرستش کی حد تک چلی گئی، جبکہ یوسف خان کی شخصیت وہ ہے، جو دنیا کی چکاچوندھ سے بے خبر ہے۔

ان کے مطابق دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ دلیپ کمار اور یوسف خان کے درمیان بڑا فرق ہے، یوسف خان تو دلیپ کمار سے بہت زیادہ گھبراتا ہے۔ دراصل دلیپ کمار کی حقیقت خدا کو ہی پتا ہے۔ یوسف خان وہ شخص ہے جو دنیا کی راہوں سے بے نیاز رہا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔