شیر علی خاں آفریدی کے ہاتھوں وائسرائے لارڈ مایو کے قتل کی برسی
ستم ظریفی دیکھیئے کہ آج جب ملک و قوم وطن عزیز کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر امرت مہا اتسو منا رہی ہے، تو شیر علی خاں کے تاریخ ساز واقعہ کا چرچا پورے ملک میں کہیں نہیں سنا گیا
قوموں کے عروج وزوال میں ہر لمحے کا شمار ہوتا ہے، جہاں پل بھر میں بعض ایسے حادثے رونما ہوتے ہیں جو یادگار بن جاتے ہیں اور کچھ بدنما داغ۔ ایسا ہی ایک واقعہ برطانوی نو آبادیاتی نظام میں 8 فروری 1872 کو وقوع پذیر ہوا تھا، جس کا کلنک رہتی دنیا تک نہیں مٹ سکتا۔ جب برٹش انڈیا کے چوتھے وائسرائے ارل آف مایو کا قتل شیر علی خاں آفریدی کے ہاتھوں سر زد ہوا تھا۔ لیکن برٹش انڈیا کے اقتدار اعلیٰ نے اتنے بڑے سانحہ کو طول نہ دے کر ایسی سرد مہری کا مظاہرہ کیا کہ جیسے دامن پر لگی کوئی دھول۔ برطانوی مؤرخین نے بھی اپنے آقاؤں کا پورا ساتھ دیا۔ جس میں پیش پیش تھا سر ولیم ولسن ہنٹر۔ وہ اپنی تصنیف میں لکھتا ہے کہ ”اس کتاب میں نہ تو اس کا نام، نہ ہی اس کے موضع یا قبیلے کا کوئی ریکارڈ مل سکے گا۔“
لیکن ستم ظریفی دیکھیئے کہ آج جب ملک و قوم وطن عزیز کی آزادی کے پچھتر برس مکمل ہونے پر امرت مہا اتسو منا رہی ہے۔ اس دوران شیر علی خاں کے تاریخ ساز واقعہ کو بھی 150 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن جشن کے اس سنہری موقع پر پورے ملک میں کہیں اس کے نام پر چرچا تک نہیں سنی گئی۔
وائسرائے ارل آف مایو نے 12 جنوری 1869 کو ہندوستان کے چوتھے وئسرائے اور گورنر جنرل کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا اور اکتوبر 1871 میں میجر جنرل ڈونالڈ اسٹوارٹ کو ا نڈمان کا چیف کمشنر مقرر کیا۔ دریں اثنا لارڈ مایو نے اصلاحات کا نیا مجموعہ ضوابط مرتب کرایا جسے انڈمان میں نافذ کر دیا گیا بہ سبب سزائے کالا پانی ہندوستان اور بیرون ممالک کے دیگر قید خانوں سے مزید سخت ہو گئی۔ جسے آج کا گوانتانامو کہنا بے جا نہ ہوگا۔
اسٹوارٹ نے لارڈ مایو سے انڈمان کا دورہ کرنے کے لیے بار بار مؤدبانہ التجائیں کیں تو وائسرائے نے اپنے تمام کام پس پشت ڈال کر دورے کا پروگرام بنایا۔ جہاں ایک سابق کمپنی گھوڑسوار شیر علی خاں ولد ولی ساکن جمرد ضلع پشاور اپنے ایک دشمن کے جرم میں سزائے کالا پانی کاٹ رہا تھا، جس نے 1857 کے عظیم مجاہدین کی قربت میں آ کر اپنی زندگی ملک و قوم کے لیے وقف کر دی تھی اور کسی بڑے اعلیٰ برطانوی افسر کو مارنے کا عہد کر چکا تھا۔
لارڈ مایو کا جتھہ 24 جنوری 1872 کو کلکتہ سے برما ہوتے ہوئے 8 فروری صبح 8 بجے پورٹ بلیر پر لنگر انداز ہوا۔ اِدھر وائسرائے کے استقبال میں توپیں گرج رہی تھیں اُدھر شیر علی کی رگوں کے لہو میں طوفان مچ رہا تھا۔ اس نے سبزی کاٹنے والی چھری کو مزید پتھر پر تیز کیا اور اپنے شکار پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے ادھر سے ادھر بے چین پھرنے لگا۔ جب دورہ طے شدہ وقت سے پہلے پورا ہو گیا تو وائسرائے کے دل میں ماؤنٹ ہیریٹ دیکھنے کا خیال آیا۔ لیکن دیر ہونے کے سبب ان کے ذاتی معتمد اور چیف کمشنر نے وائسرائے سے بارہا گزارش کی وہ آج نہ جاکر کل جائیں،مگر انہوں نے کسی کی نہیں سنی، لہٰذا ان کے پہنچنے سے قبل مزید فوجی نفری وہاں بھیج دی گئی۔
وائسرائے ماؤنٹ ہیریٹ کے حسین مناظر میں ایسے کھوئے کہ ان کی زبان سے برجستہ نکلا کہ ’کتنا خوبصورت منظر ہے! ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا‘ لیکن سب اس بات سے بے بہرہ تھے کہ شیر علی خاں کی شکل میں موت وائسرائے کا مسلسل پیچھا کر رہی ہے۔ آفتاب غروب ہوچکا تھا وائسرائے کے بیڑ ے میں شامل جہاز کی لائٹیں روشن ہوچکی تھیں۔ لارڈ مایو ذاتی معتمد اور کمشنر کے ساتھ پہاڑی سے اتر رہے تھے لیکن شیر علی کی نظریں عقاب کی طرح اپنے شکار پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی وائسرائے کشتی میں سوار ہونے کے لیے پہنچے اور کمشنر مایو کی اجازت لے کر ذرا ہٹے تو چٹان کے پیچھے چھپے شیر علی خاں فوراً بھوکے شیر کی مانند وائسرائے پر جھپٹ پڑا اور دو ایسے کاری ضرب لگائے کہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔ شیر علی خاں نے اس کے بعد بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
جب برطانوی حکام نے شیر علی سے دریافت کیا کہ اس نے اتنا بڑ ا کام کس کی ایما پرکیا اور اس سازش میں کتنے افراد شامل ہیں تو دلیر مجاہد نے شیر کی طرح گرجتے ہوئے کہا ’’میں نے خدا کے حکم سے کیا ہے خدا میرا شریک ہے۔‘‘ شیر علی خاں کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے آناً فاناً میں 11 مارچ 1872 کو وائپر جزیرے پر پھانسی دے دی گئی لیکن ستم بالائے ستم اغیار کے ساتھ ساتھ تاریخ ہند نے بھی اسے وہ مقام نہ دیا جس کا کم از کم ضغیم ہند شیر علی خاں آفریدی مستحق تھا۔
میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔