نیا ہندوستان! علامہ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا‘ پڑھانے پر ٹیچر معطل
اقبال نے جب ’بچے کی دعا‘ تخلیق کی تھی تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ اس نظم کے پڑھانے پر کسی شخص کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے
شاعر مشرق علامہ اقبال کی مشہور نظم ’لب پہ آتی ہے دعا‘ پڑھانے پر صوبہ اترپردیش میں ایک پرائمری اسکول کے ہیڈماسٹر کو معطل کردیا گیا۔ ضلع پیلی بھیت کے ضلعی مجسٹریٹ نے یہ قدم ہندو قوم پرست تنظیم وشوا ہندو پریشد کی اس شکایت پر اٹھایا ہے جس میں ایک سرکاری اسکول میں بچوں کو 'مذہبی دعا‘ پڑھانے پر اعتراض کیا گیا تھا۔
اقبال نے جب ’بچے کی دعا‘ لکھی تھی تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ اس نظم کے پڑھانے پر کسی شخص کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔
ضلع مجسٹریٹ ویبھو سریواستوا کا کہنا ہے کہ بلاک ایجوکیشن آفیسر کی تفتیش کے بعد بیسل پور پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر سید فرقان علی کو اس لیے معطل کیا گیا ہے کیوں کہ وہ 'بچوں سے قومی ترانے کے بجائے ایک مذہبی گیت دعا کے طور پر پڑھوا رہے‘ تھے۔
ضلع مجسٹریٹ کا مزید کہنا ہے کہ اگر ہیڈ ماسٹر فرقان علی قومی ترانے کے بجائے کوئی دوسری نظم پڑھوانا چاہتے تھے تو انہیں اس کی باضابطہ اجازت لینا چاہیے تھی کیوں کہ قومی ترانے کی جگہ کوئی دوسری نظم پڑھوانا جرم ہے۔
معاملے کی تفتیش کرنے والے بلاک ایجوکیشن افسر کا کہنا ہے کہ انہیں وشو ہندو پریشد کی طرف سے جو شکایت ملی تھی، اس میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اسکول میں بھارت کا قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے یا نہیں۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ شکایت یہ کی گئی ہے کہ 'لب پہ آتی ہے دعا‘ کیوں پڑھائی جاتی ہے۔
معطل ہونے والے استاد کا موقف
دوسری طرف پاؤں سے معذور 45 سالہ سید فرقان علی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اسکول میں قومی ترانے کے ساتھ ساتھ بالعموم ہندی نظم 'وہ شکتی ہمیں دینا‘ ہی پڑھائی جاتی ہے لیکن چونکہ یہاں نوے فیصد طالب علم مسلمان ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کی نظم 'بچے کی دعا‘ بھی پڑھائی جائے، اس لیے وہ اسکول میں یہ نظم بھی پڑھواتے ہیں۔
فرقان علی نے یہ بھی بتایا کہ اقبال کی مذکورہ نظم پرائمری اسکولوں کے لیے اترپردیش کی صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ نصابی کتاب میں شامل ہے اوراس نظم میں حب الوطنی، وطن عزیز کی زینت و عظمت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور مدد کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
سید فرقان علی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ''یہ سب کچھ دراصل ہندو شدت پسند جماعت وشو ا ہندو پریشد اور 'ہندو واہنی‘ کی کارستانی ہے، جو مجھے اسکول سے نکلوانا چاہتی ہیں۔ ان لوگوں نے اسکول کے باہر اور ضلعی کلکٹریٹ کے دفتر کے سامنے مظاہرے بھی کیے اور جھوٹی شکایت درج کرائی۔ حالانکہ میرے طلبہ روزانہ 'بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔‘‘
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نظم 'بچے کی دعا‘ بھارت میں کافی مقبول ہے۔ بیشتر اسکولوں اور بالخصوص مسلم اکثریتی اسکولوں میں کلاس شروع ہونے سے قبل یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ حتی کہ جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچے نہیں ہیں، وہاں بھی اسے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بجایا جتا ہے۔
تاہم ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں اور اردو سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو نشانہ بنانے اور ہندوتوا اور ہندو دھرم کی علامات کو غالب کرنے کی براہ راست یا بالواسطہ کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ پیلی بھیت کا مذکورہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر ڈاکٹر اقبال ہی کی مشہور نظم 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ پورے جوش و خروش کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ بھارتی فوج بھی اسے اپنے مارچ پاسٹ کے دھن کے طور پراستعمال کرتی ہے۔ لیکن حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اقبال کی شاعری پسند نہیں۔ آر ایس ایس سمجھتی ہے کہ ایک 'اکھنڈ بھارت‘ کی تقسیم کے پس پشت اقبال کا نظریہ بھی کارفرما رہا ہے۔
اترپردیش میں ایک استاد کی معطلی کے بعد یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ملک کے مشکل ترین امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ضلع مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز ہونے والے افسر کو کیا یہ بھی نہیں معلوم کہ 'لب پہ آتی ہے دعا‘ کوئی مذہبی گیت نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اب جب کہ اترپردیش کے اس اسکول میں پڑھانے والے واحد ٹیچر کو بھی معطل کردیا گیا ہے تو بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Oct 2019, 7:55 AM