ندائے حق: ملک کے تعلیمی نظام میں ترمیم اور بدلاؤ کی ضرورت... اسد مرزا
اگر ہمیں ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانا ہے تو اس کے لیے تعلیمی ماہرین کی نگہداشت میں تجارتی شعبے کے ساتھ اور سیاسی جوابدہی کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔
حالیہ عرصے میں جہاں کورونا وبا نے مختلف شعبہ جات پر گہرے اور مضمر اثرات چھوڑے ہیں، ان سے کسی حد تک نپٹا جاسکتا ہے، لیکن ایک خاص شعبے پر اس کے مضر اثرات سے نپٹنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ شعبہ ہے تعلیم کا۔ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ تعلیم کسی بھی قوم یا سماج کی روح ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال میں جس طرح ہمارے پالیسی سازوں نے ملک کی تعلیمی پالیسی کے تئیں جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ نا صرف منفی بلکہ دور رس ہیں اور ان کا منفی اثر نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں : ندائے حق: ملک کے نظامِ صحت میں اصلاحات کی ضرورت!... اسد مرزا
اس کے علاوہ تعلیمی شعبے میں تعلیمی و تدریسی اداروں میں اور پورے ملک میں جس طرح فکر اور خیالات رائج کرنے کا رجحان بڑھا ہے، وہ بھی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ بالخصوص ہماری نوجوان نسل کے لیے کیوںکہ یہ فکر اور خیالات ہمارے تعلیمی و تدریسی اداروں سے نکل کر ہمارے سماج کے ہر فرد پر حاوی ہوتے چلے جارہے ہیں اور ایسے ماحول میں ملک کی اقلیتیں اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کر رہی ہیں۔
تعلیم آخر کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ سوامی وویکا نند کے بقول تعلیم انسان میں موجود صلاحیتوں کو سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ جس سے کہ اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ لیکن اگر ہم گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ سچائی سامنے آئے گی کہ اس عرصے میں تعلیم سے جڑے تمام افراد چاہے وہ استاد ہوں، طالب علم ہوں یا ان کے والدین، سبھی ایک ذہنی تناؤ کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اساتذہ کو آن لائن طریقے سے پڑھانے اور طالب علموں کو آن لائن طریقے سے پڑھنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ ان سب میں ملک کے تعلیمی اداروں یعنی کہ NCERT یا CBSEکا کوئی رول نظر نہیں آرہا تھا بلکہ یہ احکام سرکاری افسروں اور وزراء کی جانب سے صادر کیے جارہے تھے اور ان میں مکمل طور پر عقل کا فقدان ظاہر تھا۔ ملک کے ہر طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون ہونا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو وہ پڑھائی کیسے کرے گا، اس کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔
حال ہی میں جس طریقے سے بارہویں کلاس کے امتحانات کے سلسلے میں فیصلہ لیا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کس راہ پر گامزن ہے۔ اس فیصلے کا اثر ان بچوں کے آنے والے کیریئر پر اگلے پانچ سال نہیں بلکہ پوری زندگی رہے گا۔ کیونکہ ان کے اوپر ایک لیبل چسپاں رہے گا کہ وہ بغیر امتحان دیئے ہی بارہویں کلاس پاس ہوگئے تھے جو کہ کسی بھی طالب علم کے تعلیمی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہوتا ہے اور اسی کے اوپر اس کے مستقبل کی تعلیمی کوششیں اور کیریئر کے آغاز کا انحصار ہوتا ہے۔
ایک طرف تو ہم وشو گرو بننے کے دعوے کرتے ہیں، دوسری طرف ہمارے کسی بھی فیصلے یا پالیسی میں کوئی ذہنی یا فکری سوچ نمایاں نہیں ہوتی۔ کرونا وبا کے شروع ہونے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ چین کی فیکٹریاں بند ہونے کے بعد، تمام صنعتیں اپنی مصنوعات ہندوستانی کارخانوں میں تیار کرائیں گی، لیکن کوئی بھی یہ سو چنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ کیا ہمارے ملک میں جدید مشینوں اور آلات سے لیس کارخانے موجود ہیں یا نہیں، دیگر یہ کہ ان جدید مشینوں کو چلانے کے لیے ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ ہے بھی یا نہیں، اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔ اسی طرح کمپیوٹر اور Artificial Intelligence جیسے شعبوں کے متعلق بڑے بڑے دعوے کیے جارہے تھے، لیکن یہاں بھی ہم یہ بھول رہے تھے کہ گزشتہ دس سالوں میں جس طرح چینی کمپنیوں نے ان شعبوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے اس کے پس پردہ حکومت اور صنعتی شعبوں کی 20 سال کی مشترکہ حکمت عملی کارفرما تھی۔
اگر ہم Computer programmingاور coding کی بات کریں تو اس کے فروغ کے لیے چینی حکومت نے اپنی نوجوان نسل کی ہزاروں بچوں کو مختلف شہروں میں آباد کرکے انھیں یکسوئی سے اپنے پیشے میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہندوستان میں اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں چین جیسے آمریت والے قانون نافذ نہیں کیے جاسکتے۔ لیکن ہم یہ سب حاصل کرنے کے لیے جمہوری نظام کے تحت ملک میں سازگار ماحول تو بناسکتے ہیں، جس کے تحت حکومت اور صنعتی ادارے ایک جامع حکمت عملی کے تحت ملک میں ایسے تکنیکی ادارے قائم کرسکتے ہیں جہاں ہمارے نوجوانوں کو Codingاور Software اور Hardware کے مختلف کورسیز کروائے جاسکیں اور اس کے بعد انھیں اپنے خاص Skill کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے تمام تر سہولت فراہم کی جاسکتی ہیں، جس سے کہ ہماری ایک نسل ان شعبوں میں مہارت رکھنے اور ان سے منسلک صنعتوں کے فروغ کے لیے کام کرسکتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس کاروبار کے منتقل ہونے کی ہمیں امید تھی وہ ہندوستان کے بجائے ویتنام منتقل ہوگیا۔ ویتنام نے بھی چین کی طرح اپنی نوجوان نسل کو نئے موضوعات سے آراستہ کرکے انھیں ماہرین میں تبدیل کیا اور ساتھ ہی اپنے صنعتی شعبوں کو حکومت کے ذریعے امداد و فروغ دی ہے اور یہ سب اس نے محض گزشتہ پچیس سے تیس سال کے عرصے میں حاصل کیا۔
آزادی کے بعد تعلیم
سن 1947ء میں ملک کی آزادی کے وقت، ملک میں شرح خواندگی محض 12 فی صد تھی جبکہ سن2021ء میں یہ شرح 75 فی صد ہے اور ملک کی چند ایک ریاستوں میں 100 فی صد بھی ہے۔ تاہم اگر ایک تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوجائے گا کہ آزادی کے بعد مختلف حکومتوں نے تعلیم کے بجائے دفاعی شعبے کے لیے ہتھیار خریدنے پر زیادہ پیسے خرچ کیے۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، سن 2004ء میں حکومت نے ایک Education Cess نافذ کیا تھا جس کے تحت ہر ایک خرید یا بل پر آپ کو 2 فی صد ٹیکس دینا ہوتا تھا۔ تین سال کے عرصے میں اس ٹیکس کے ذریعے حکومت نے تقریباً 32,000 کروڑ روپئے جمع کیے لیکن ان کو کہاں خرچ کیا گیا اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج بھی یہ income taxدہندگان کو اپنے کل ٹیکس کا 1.5 فی صد تعلیمی ٹیکس دینا ہوتا ہے، لیکن اس کے خرچ کی بھی تفصیل موجود نہیں ہے۔ جبکہ اگر 2007 تک جمع ہونے والے 32,000 کروڑ روپئے ٹھیک طریقے سے خرچ کیے جاتے تو آج ملک کے ہر گاؤں میں ایک بہ آراستہ مڈل اسکول تمام تر سہولیات کے ساتھ موجود ہوتا اور وہاں مامور استادوں کی تنخواہ بھی اسی پیسے سے ادا ہوجاتی۔
معاصر ہندوستان میں جس طریقے سے طبقاتی اور مذہبی تشدد میں تیز تر اضافہ رونما ہو رہا ہے،اس کی چھاپ ہندوستانی کلاس روموں کے علاوہ تعلیمی نصاب اور تدریسی طریقوں پر بھی پڑ رہی ہے۔ اور جس نے مزید طبقاتی اور مذہبی تعصب پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کوئی بھی قوم اپنی تاریخ کو مسخ کرکے یا اسے نئے طریقے سے پیش کرکے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تاریخ اپنی اصل حیثیت میں ہمیشہ موجود رہتی ہے اور وقت کا پہیہ انسان کو اس کے تاریخی پس منظر سے حقائق سے وقتاً فوقتاً متعارف کراتا رہتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں اصل چیلنج مشکل سماجی حقائق کو نوجوان کے ذہن نشین کرانے کے لیے تازہ اور اختراعی طریقے تلاش کرنے کی ہے نہ کہ ان کو کسی مخصوص قوم یا اقلیت کے خلاف ان کی ذہن سازی کرنا، اپنے مذہب کو دوسرے مذہب سے بہتر ثابت کرنا اور جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اگر ملک کے تعلیمی شعبے میں اس طریقے کی بے جا، غیر ضروری اور ناقص ترمیمات کری جائیں گی تو اس کا منفی اثر ہماری آنے والی نسلوں پر پڑے گا۔ تاریخ کبھی بھی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو معاف نہیں کرتی ہے۔
اگر ہمیں واقعی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو نئی تعلیمی و تدریسی طریقوں و صلاحیت کے ساتھ اس میں ترمیم کرنا ہوگی جس میں تحقیق اور آزاد خیالات کی عکاسی کرنا سب سے اہم نکات ہونے چاہئیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔