میوات میں فروغ اُردو کیلئے نوجوان نسل پرعزم
’’اردو زبان ہی نہیں بلکہ ایک وسیع تہذیب بھی ہے۔ کچھ تنگ نظر لوگ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر تفریق کرتے ہیں اور یہ اس ہندوستانی زبان کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘‘
اردو زبان جس کا کبھی تمام برصغیر میں بول بالا تھا اب ہندوستان میں اس کوسمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ملک کو 1947 میں آزادی حاصل ہونے کے بعد اردو جس تعصب اور بے توجہی کا شکار ہوئی اس کی وجہ سے اس زبان کو اپنا وجود تک بچانا مشکل ہو گیا۔ مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور اردو زبانوں کی تعلیم تو دیتے رہے لیکن ان کا دائرہ زیادہ بڑا نہ ہو سکا۔ وہ تو بھلا ہو بالی ووڈ کے نغمہ نگاروں اور شاعروں کا جنہوں نے گانوں اور شاعری میں اردو الفاظ کا استعمال کیا جس کی وجہ سے ہندوستان کا ایک طبقہ اردو کی اہمیت کو قبول کرتا رہا۔ یہ ایسا طبقہ ہے جو اردو کی نفاست اور خوبصورتی کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اردو زبان کو زیادہ گہرائی سے نہیں سمجھتا اور اردو رسم الخط سے یہ بالکل انجان ہے۔
خطہ میوات ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں صدیوں سے ہندو مسلم روایت و ثقافت مشترکہ رہی ہیں اور دونوں مذاہب کے اتحاد کی مثال کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ ایک زمانے تک یہاں کے بھولے بھالے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود اپنے دین کو بخوبی نہیں جانتے تھے۔ پھر مولانا الیاس ؒ نے دہلی کی چھپر والی مسجد سے تبلیغ کا کام شروع کیا اور میوات کے مسلمانوں کو دین سے جوڑنے کی مہم چلائی۔ اس مہم کا میوات میں تیزی سے اثر ہوا اور تبلیغی جماعت کودنیا بھر میں پہچان حاصل ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں۔ ہمّتا میو: جنہوں نے میوات کے مسلمانوں کو پاکستان جانے سے بچایا
یہ سب کچھ ہونے کے باوجود خطہ میوات میں اردو ادب کو کبھی فروغ نہیں مل سکا۔ اب اسی کمی کو پر کرنے کی نوجوان نسل نے ذ مہ داری سنبھا لی ہے۔ پنہانہ کے کاٹپوری گاؤں سے وابستہ ساہون محمد کاٹپوری نے اپنے فیس بک پروفائل سے اردو کو فروغ دینے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ کافی تعداد میں لوگ ساہون کی مہم کی حمایت کر رہے ہیں اور دل و جان سے تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔
آل انڈیا میو کونسل کے سربراہ ساہون محمد کاٹپوری نے قومی آواز سے گفتگو کے دوران کہا ’’اردو جتنی شیریں زبان ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے لیکن اس کی بقا کے لئے عوام سے تعلق ہونا بے حد ضروری ہے۔ میوات میں اردو کس طرح پھیلے اس کی فکر ہم سب کو مل کر کرنی ہوگی۔ اردو زبان و ادب ہماری مشترکہ ثقافت کی پہچان ہے اور بیش قیمتی تاریخی اثاثہ بھی ہے، ہمیں اسے محفوظ رکھنا ہوگا۔ ‘‘
ساہون کہتے ہیں ’’آزادی سے پہلے اردو سرکاری کام کاج کی زبان تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اسے اپنی قومی زبان قرار دے دیا تو ہندوستان میں پاکستان کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اردو بھی مخالفت کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکی۔ اب ہمیں اس زبا ن کو وسیع پیمانے پر فروغ دینا ہے اور اسے جدید تعلیم کے ساتھ جوڑنا ہے۔ ‘‘
متعدد تنظیموں کے تعاون سے ساہون محمد کاٹپوری کی تنظیم آل انڈیا میو کونسل 13 جنوری کو میوات کے نوح شہر کے بڑکلی چوک پر ایک مشاورتی میٹنگ کا انعقاد کرنے جا رہی ہے۔ میٹنگ میں اردو کو عام بول چال کی زبان بنانے پر غور و خوض کیا جائے گا۔
بڑے پیمانے پر میوات کے باشندگان ساہون محمد کاٹپوری کی اس پہل کی تعریف کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اردو بان کی بقا کے لئے ہمیں صرف حکومت کے رحم و کرم پر منحصر نہیں رہنا بلکہ ہم خود زمینی سطح پر کوشش کریں گے۔‘‘ ساہون محمد کاٹپوری کا کہنا ہے ’’اردو کو محض مدرسوں تک محدود رکھنا اس زبان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ ابھی اردو کے لئے تحریک کا آغاز میوات سے ہو رہا ہے لیکن بعد میں اس تحریک کو باہر کے علاقوں اور صوبوں میں بھی چلایا جائے گا۔ میرا مقصد اردو زبان و ادب کو ہر خاص و عام تک پہنچانا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Jan 2018, 2:53 PM