جموں وکشمیرمیں بےروزگاری کی شرح سب سے زیادہ!
بےروزگاری کی بڑھتی شرح پرریاست کی پی ڈی پی حکومت کی اتحادی بی جے پی کا کہنا ہے کہ صرف حکومت کے سہارے ہر کسی کو ملازمت حاصل نہیں ہو سکتی اور نوجوانوں کو ریاست سے باہر بھی مواقع تلاش کرنے ہوں گے۔
کسی خطہ میں جب مسلسل بد امنی اور مظاہروں کا دور چل رہا ہو تو اس خطہ میں لازمی طور پر کئی منفی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی وادی کشمیر کشیدہ حالات سے دو چار ہے جس کی وجہ سے ترقی متاثر ہو گئی ہے۔ سیاحوں کی توجہ سب سے زیادہ مرکوز کرنے والی وادی کشمیر میں شعبہ سیاحت کو شدید دھچکا پہنچا ہے، سیزن تک میں لوگ سیاحوں کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔
کچھ علاقوں میں سڑک، پانی اور بجلی کی پریشانیاں پیش آنا تو عام بات ہے اور اب بےروزگاری بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
حال ہی میں سنٹر فارمانیٹرنگ انڈین اکنامی نے بامبے اسٹاک ایکسچینج کے اشتراک سے ایک سروے کیا ہے جس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ بےروزگاری کی شرح 12.13 فیصد جموں و کشمیر ریاست میں ہے۔
ریاست کے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں بےروزگاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں ملی ٹینسی ہی حکومت اور انتظامیہ کا اہم مدہ بن کر رہ گئی ہے اور دیگر مسائل کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔ چاروں طرف ہر مدے پر تو بحث مباحثہ اور مظاہرے ہوتے ہیں لیکن بےروزگاری پر بات تک نہیں ہوتی۔
جنوری 2017 میں جموں و کشمیر اسمبلی میں ریاستی حکومت نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ اکیلے کشمیرمیں ہی 58796 نوجوان بےروزگار ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق مختلف روزگار اور کاؤنسلنگ مراکز میں 104577 بےروزگار نوجوان رجسٹرڈ ہیں۔ تنہا کولگام ضلع میں ہی 13039 نوجوان بےروزگار ہیں۔
ریاستی حکومت نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں 18-29 سال عمر کے زمرے کی بےروزگاری کی شرح 24.6 فیصد ہے جبکہ بقیہ تمام ہندوستان میں یہ شرح محض 13.2 فیصد ہے۔
بےروزگاری پر مبنی تازہ رپورٹ میں جو اعداد و شمار منظر عام پر آئے ہیں ان کے مطابق کیرالہ میں بیروزگاری کی شرح 9.60 فیصد، آسام میں 8.6 فیصد، چنڈی گڑھ میں 8.05فیصد اور ہریانہ میں 7.16فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر کو چھوڑ کر دیگر تمام ریاستوں میں بےروزگاری کی شرح 5 سے 8 فیصد کے بیچ میں ہے۔ غور طلب ہے کہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی مجموعی بےروزگاری کی شرح 4.7 فیصد ہے۔
سب سے کم بیروزگاری شرح والی تین ریاستوں کی بیروزگاری شرح پر نظر ڈالیں تو یہ شرح اتر پردیش میں 1.35 فیصد ، ہماچل پردیش میں 2.40 فیصد اور کرنا ٹک 4.42فیصد ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی بات کریں تو 2016 کے ریکارڈ کے مطابق یہاں کی بیروزگاری کی شرح تقریباً 13 فیصد تھی ، ریاست کی رپورٹ اور اس رپورٹ کا موازنہ کریں تو کچھ کمی تو دکھائی دیتی ہے لیکن اتنی زیادہ نہین جتنی ہونی چاہئے تھی۔
اس معاملہ پر ایک بحث کے دوران بی جے پی کے رہنما طاہر چوہدری نے کہا ’’ جموں و کشمیر میں بیروزگاری کے مسئلہ کی اصل وجہ یہاں کے حالات ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان جب ڈاکٹر ، انجینئر کا پھر کسی پروفیشنل کورس کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں تو ان کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ریاست میں ہی ملازمت حاصل کریں لیکن حکومت ہر کسی کو ملازمت نہیں دے سکتی۔ ‘‘
طاہر کہتے ہیں ’’ نوجوانوں اور ان کے خاندان کے افراد کو یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا بیت بڑی ہے اور نوجوانوں کو ریاست سے باہر کا رخ کرنا ہوگا۔‘‘
اتر پردیش اور بہار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طاہر نے کہا ’’ ہم اگر اپنی ریاست میں کام کرنے والوں پر نظر ڈالیں تو پاتے ہیں کہ کارپینٹر، پینٹر ،مالی یا اس طرح کا کوئی بھی کام کرنے والے کثیر تعداد میں یو پی اور بہار کے لوگ ہی ہیں ۔ظاہر سی جس ریاست کے لوگ ہمارے یہاں تک آکر کام کر رہے ہیں وہاں کی بیروزگاری شرح کم ہونی ہے۔ ‘‘
طاہر مزید کہتے ہیں ’’بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے ریاست میں بھی ہم حکومت کے اتحادی ہیں لیکن لوگوں کو اپنی ریاست سے باہر نکلنا ہوگا۔ آج کے زمانے میں اگر کوئی شخص کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے روزگار کی کمی نہیں ہے۔ ‘‘
کشمیر سے وابستہ سینئر صحافی اشفاق گوہرکا بیروزگاری کے معاملہ پر کہنا ہے ’’ریاست بیروزگاری کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جو ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے۔ ہر ریاست میں ایک باضابطہ نظام کے تحت ایک ’ونڈو ‘ ہوتی ہے جس کے ذریعہ اس طرح کے مسائل حل کئے جاتے ہیں لیکن ریاست جموں و کشمیر میں وہ نظام موجود نہیں ہے ۔ ‘‘
اشفاق گوہر کا مزید کہنا ہے ’’حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی حکمت عملی تیار کرے کہ ریاست میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہو سیکں تاکہ نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ ‘‘
اشفاق گوہر کے مطابق ’’ریاست جموں و کشمیر میں سیاحت کے شعبے میں بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن وہاں بھی سیاست کا بولبالا ہے ۔ حالات کے پیش نظر سرمایہ کاری بھی نہیں ہو پا رہی ہے۔‘‘
گوہر کہتے ہیں کہ ’’اگر بڑی بڑی کمپنیاں ، ایم این سی اور کال سنٹر ریاست میں بھی قائم کئے جائیں تو شاید اس شرح میں کچھ کمی واقع ہو اور ریاست اس صورت حال سے باہر نکل سکے۔ ‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔