میوات: درجنوں اردو اساتذہ کے عہدے ختم، لوگوں میں شدید ناراضگی
لوگوں کا کہنا ہے کہ حیرت تو یہ ہے کہ بغیر کوئی وجہ بتائے اردو اساتذہ کے عہدے ختم کئے جا رہے ہیں، جبکہ متعلقہ سرکاری اسکولوں کو اس حوالے سے تحریری طور پر کوئی حکم نامہ نہیں ملا ہے۔
نوح، پلول (میوات): ہریانہ کے دو اضلاع نوح اور پلول میں شعبہ تعلیم نے بغیر اطلاع کے اردو اساتذہ کے عہدے ختم کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں کافی ناراضگی ہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب ٹی جی ٹی عہدوں پر پرموشن کے دوران اردو اساتذہ اپنے لئے اسکولوں کو تلاش کر رہے تھے۔
نوح اور پلول دونوں ہی اضلاع مسلم اکثریتی والے ہیں ، یہاں کے سینکڑوں طلبہ و طالبات اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اب وہ مایوس ہیں۔ ہریانہ حکومت کے اس فیصلے سے تقریباً 3 درجن اسکولوں کے اردو سبجیکٹ لینے والے سینکڑوں طلبہ و طالبات متاثر ہوئے ہیں ۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ حیرت تو یہ ہے کہ بغیر کوئی وجہ بتائے اردو اساتذہ کے عہدے ختم کئے جا رہے ہیں، جبکہ متعلقہ سرکاری اسکولوں کو اس حوالے سے تحریری طور پر کوئی حکم نامہ نہیں ملا ہے۔
غور طلب ہے کہ خطہ میوات میں بقیہ ہریانہ کے مقابلے اردو زبان سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اردو کو بطور سبجیکٹ لینے والے طلبہ کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اردو اساتذہ کا انتظام ہونا چاہئے۔
ماسٹر مکٹ خاں کا کہنا ہے کہ ’’پلول ضلع کے بلاک ہتھین کے گاؤں ٹونکا، روپ نگر، ناٹولی، کیھلوکا ، پچانکا، چلی اور بھیم سیکا کے سرکاری مڈل اسکولوں میں سرکار نے اردو کو فروغ دینے کے لیے اردو ٹیچر کے عہدے منظور کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان عہدوں پر اردو اساتذہ کی تقرری ابھی تک عمل میں نہیں آئی ہے تاہم متبادل کے طور پر اردو کی تعلیم کا نظم موجود ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے ، چونکہ یہاں بچے اردو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس لیے اردو اساتذہ کے عہدے ختم کرنے کے بجائے ان کی تقرری ہونی چاہئے۔
سماجی کارکن شمس الدین کا کہنا ہے کہ ’’جن اسکولوں میں اردو کو سبجیکٹ کے طور پر لیا جا تاہے ان میں درجہ ایک تا درجہ آٹھ تک کی کتابیں سرکار کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں ۔ ایسے حالات میں ان اسکولوں کے حوالے سے آن لائن ریکارڈ میں اردو اساتذہ کے عہدے نہیں دکھایا جانا ناقابل یقین ہے۔ جبکہ 2016 کے ریکارڈ میں ان اسکولوں میں اردو کے عہدے دکھائے گئے تھے۔ ‘‘
یاد رہے کہ کانگریس کے دور حکومت میں سابق وزیر اعلیٰ ہریانہ بھجن لال نے 1980 میں 100 اردو اساتذہ کے عہدے مختص کئے تھے۔ اب بی جے پی کی کھٹر حکومت کے دور میں ان میں سے نوح ضلع کے 31 عہدے اور پلول ضلع کے 7 عہدے ایک طرح سے ختم کر دیئے گئےہیں۔
اس تعلق سے جب پلول کے ضلع تعلیمی افسر انیل شرما سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کافی اسکولوں میں اردو اساتذہ کے عہدے طے کر دیئے گئے ہیں، اگرکہیں ضرورت ہوگی تو وہاں بھی بھیج دیئے جائیں گے۔ ‘‘
اردو آساتذہ کو لےکر جب کانگریس کے سابق وزیر آفتاب احمد سے ’قومی آواز‘ نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’ اسکولوں کو بند کرنا اور اردو اساتذہ کی سیٹوں کو ختم کرنا سرکار کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے ۔ کانگریس کی سابقہ سرکار نے اپنے دور میں نوح کے ہر پرائمری اسکول میں ایک اردو کی سیٹ مختص کی تھی جن کی تقرریاں ادھوری رہ گئی تھیں۔ ‘‘
افتاب نے مزید کہا ’’سرکار کو چاہیے تھا کہ ان خالی جگہوں کو پُر کیا جاتا ، لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بھجن لال کے دور میں جو اردو اساتذہ کے عہدے مختص کئے گئے تھے ان اسکولوں سے اردو اساتذہ کی سیٹیں ختم کی جا رہی ہیں۔ ‘‘
یاسین میو ڈگری کالج نوح کے شعبہ اردو کے پروفیسر نصیرالدین ازہر کا کہنا ہے کہ ’’اس فیصلے سے سرکار کی نیت واضح ہو جاتی ہے کہ ایسے حالات میں موجودہ حکومت سے اُردو کے فروغ کےلئے امیدیں بھی کیسے کی جائیں ! گزشتہ 4 سالوں کے دوران اردو زبان کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ ہریانہ اردو اکیڈمی کا رکن ہونے کے باوجود مجھ سے آج تک کوئی رابطہ بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ ‘‘
سماجی کارکن ڈاکٹر اشفاق عالم کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کے اس فیصلے کی ہم پوری طرح مذمت کرتے ہیں اور جلد ہی ضلع انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے تحریک چلا کر اردو اساتذہ کی خالی سیٹوں کی بحالی کے لئے لڑائی لڑی جائے گی۔‘‘
گورمنٹ سیکنڈری اسکول نگینہ(نوح) کے اردو زبان کے استاد ڈاکٹر ہاشم خان کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی اردو کی بدحالی کی اصل ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پرائمری سطح پرنوح میں 544 اسامیاں ہیں جن میں سے محض 72 کو پُر کیا گیا ہے۔ حکومت سے اپنے مطالبات کے لئے تبھی لڑائی لڑ سکتے ہیں جب اردود کے طلبہ موجود ہوں ، لیکن جب طلبہ ہی نہیں ہوں گے تو پھر مطالبات کس طرح پورے ہوں گے۔
ہاشم کا کہنا ہے ’’جہاں تک سیکنڈری سطح پر اردو اساتذہ کی پوسٹوں کو ختم کرنے کا سوال ہے تو کئی اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچے ہی موجود نہیں ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ کچھ پوسٹوں کو ختم کیا گیا ہو۔ بہتر ہوگا کہ پہلےشعبہ تعلیم سے اس حوالے سے اعداد و شمار حاصل کیے جائیں پھر کوئی اگلا قدم اٹھایا جائے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔