کیجریوال کا رابعہ گرلز اسکول کا دورہ، کہا سخت کارروائی ہوگی
اسکول کی سابق اور موجودہ طالبات نے اسکول پر عائد تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبات کو بند نہیں کیا گیا تھا بلکہ صرف لائن سے الگ کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: دہلی کے گلی قاسم جان علاقہ میں واقع رابعہ گرلز اسکول تنازعہ سے دوچار ہے اور سیاست کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ اسکول انتظامیہ پر الزام ہے کہ 16کمسن بچیوں کو فیس ادا نہ کئے جانے کے سبب نرسری اسکول کے بیسمنٹ میں واقع ایکٹیویٹی روم میں باقی طالبات سے علیحدہ بیٹھا دیا تھا جبکہ اسکول انتظامیہ ان الزامات کو مستقل مسترد کر رہا ہے۔
گزشتہ روز میڈیا چینلوں اور اخبارات میں شہ سرخیوں میں چھائے رہے رابعہ گرلز اسکول کا آج دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کے ساتھ دورہ کیا۔ دورے کے وقت بڑی تعداد میں لوگ اسکول کے باہر موجود رہے۔ بچیوں کے والدین جہاں اسکول انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کر تے نظر آئے، وہیں اسکول کی سابق اور موجودہ سینئر طالبات اسکول انتظامیہ کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ اپنے ہاتھوں میں رابعہ کی تعریف اور رابعہ کو بدنام کرنے والوں کے خلاف نعرے لکھے پلے کارڈ لئے کھڑی ہوئی تھیں۔ سابق طالبات کا کہنا تھا کہ بچیوں کو بند نہیں کیا گیا تھا انہیں محض لائن سے الگ رکھا گیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ ’’ہم نے اسکول کی پرنسپل کو سخت ہدادیت دی ہے اور جانچ کراکر اسکول کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔‘‘ اس دوران دہلی کے وزیر تعلیم اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا بھی موجود تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت کیجریوال میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھ رہے تھے تو اسکول کی سابقہ طالبات ان کے خلاف نعرے بازی کر رہی تھیں۔ اسکول کے باہر سابق طالبات بینر اور پلے کارڈز لے کر پہنچیں ہوئی تھیں۔
رابعہ گرلز اسکول پر الزام ہے کہ جب بچیاں اسکول پہنچیں تو اسکول انتظامیہ نے فیس جمع کرنے کی بات کہہ کر تقریباً 40 سے 50 چھوٹی بچیوں کو اسکول کے تہہ خانہ میں یرغمال بنا کر رکھا۔ ان تمام بچیوں کی عمر 5 سے 7 سال کے درمیان ہے۔ جب والدین اپنی بچیوں کو لینے اسکول پہنچے تو انہوں نے ان کی یہ حالت دیکھ کر ہنگامہ شروع کر دیا۔ اسی دوران اس واقعہ کی ویڈیو بھی بنا لی گئی۔
اس معاملہ میں پولس کی طرف سے ایف آئی آر درج کی گئی ہے دوسری طرف وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے شعبہ تعلیم سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Jul 2018, 11:46 AM