جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 100 سال: سفر ہے زیست یہاں، کفر ہے قیام یہاں... آفتاب احمد منیری

ملک کی پہلی قومی تعلیمی درس گاہ نے اپنا سفر 29 اکتوبر 1920 کو دیارِ سرسید کی تاریخی جامع مسجد سے شروع کیا تھا۔ یہی جامعہ آج ایک صدی کا سفر طے کر کے دریائے جمنا کے کنارے اوکھلا میں ایستادہ ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 100 سال
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 100 سال
user

آفتاب احمد منیری

سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو

یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

وطن عزیز ہندوستان کی عظیم دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعمیر اور اس کی تشکیل ایک خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے جیسا ہے۔ ملک کی اس پہلی قومی تعلیمی درس گاہ نے اپنا سفر 29 اکتوبر 1920 کو دیارِ سرسید کی تاریخی جامع مسجد سے شروع کیا تھا۔ یہی جامعہ آج ایک صدی کا مہتم بالشان سفر طے کر کے دریائے جمنا کے کنارے مسلم رہائشی علاقے اوکھلا میں ایستادہ ہے۔

جامعہ کا یہ سفر محض ایک ادارے کا سفر نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے خواب غفلت سے بیدار ہونے اور روشن مستقبل کی جانب کوچ کرنے کی داستان ہے، جس نے دورِ ابتلا و آزمائش میں تمام قسم کی بے سر و سامانیوں کے باوجود تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کا پرچم بلند کیا۔ اور گاندھی و مولانا آزاد کی سرپرستی نیز شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی دعاؤں کے سایہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔


سر سید کے علی گڑھ کالج کے ہوتے ہوئے اس قومی درس گاہ کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس اہم ترین سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ الہند نے اپنے تاریخی خطبہ میں کہا تھا: "ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے سستے غلام پیدا کرتے رہیں بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں اور ان عظیم مدارس کے جنھوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا۔"

جامعہ کی تاسیس کے یادگار موقع پر دیئے گئے خطبے کے ان نکات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انگریزی استعمار کے زیر اثر چلنے والا علی گڑھ کالج ملت اسلامیہ ہند کے خوابوں کی تعبیر نہیں بن سکا تھا۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لیے تحریک خلافت کے امیر کارواں مولانا محمد علی جوہر نے قوم پرست طلبا کی جماعت کو ساتھ لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ایک ایسے ادارہ کی بنیاد رکھی جسے قوم کے تعلیمی مقاصد کی تکمیل کرنی تھی۔


بانیان جامعہ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ وہ جامعہ کی شکل میں اسلام کی 1400 سالہ قدیم علمی روایت کا احیاء کرنے جا رہے ہیں، چنانچہ جامعہ کا نشان متعین کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین نے جو تاریخی عبارت تحریر کی تھی اس کے ایک ایک لفظ سے بانیان جامعہ کے تعلیمی نصب العین کا پتہ چلتا ہے۔ ذاکر حسین نے لکھا تھا:

"جامعہ کے نشان میں سب سے اوپر ایک ستارہ ہے جس میں لکھا ہے 'اللہ اکبر'۔ جب اندھیری رات میں غریب مسافر جنگل بیابان میں سفر کرتے ہوئے راستہ بھٹک جاتے ہیں، کوئی راہ بتانے والا نہیں ہوتا تو وہ ستاروں کو دیکھ کر راستہ نکالتے ہیں۔ جامعہ والوں کو راستہ بتانے والا ستارہ یہی 'اللہ اکبر' کا ستارہ ہے۔ دنیا کی اندھیاری میں یہ راہ بتاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ جتاتا ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ جس نے اس کے آگے سر جھکایا اس نے سچی زندگی کا پتہ پایا۔ اس چمکتے ہوئے ہدایت کے تارے کے نیچے ایک کتاب ہے، جس پر لکھا ہے 'علم الانسان مالم یعلم'۔ یہ کتاب قرآن پاک ہے۔ اس سے خدا نے اپنے بندوں کو اپنی مرضی کا پتہ دیا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس کتاب نے آدمیوں کو تاریکی سے روشنی میں پہنچایا اور جو راہ بھٹک گئے تھے انھیں بھی سیدھی راہ بتائی اور اس کے لانے والے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی پاک زندگی کی مثال سے اپنی آنکھوں کی تاثیر اور دل کی گرمی سے ایک ایسا انسانی گروہ تیار کر دیا جس نے دنیا سے برائیوں کو مٹایا اور خدا کی سچی برادری قائم کی۔ اس نشان کے دونوں طرف کھجور کے دو پیڑ ہیں۔ یہ اس دیس کا نشان ہے جہاں خدا کا یہ آخری پیام لانے والا پیدا ہوا۔"


اس مہتم بالشان تعلیمی نصب العین کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے جامعہ وسائل کی محرومی اور سخت مشکل ترین حالات سے نبرد آزما ہوتی رہی۔ اس دور پرآشوب میں جامعہ کو پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ اور سید عابد حسین جیسے پیکر اخلاص اور فولادی عزم والے لوگ میسر آئے جنھوں نے اپنی زندگیاں جامعہ کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ ابتدائی پانچ سال علی گڑھ میں گزارنے کے بعد سنہ 1926 میں جامعہ دہلی کے قرول باغ میں منتقل ہو گئی اور پھر جدید ہندوستان کے نقشے میں اپنی آزادی و حریت کی تاریخ اور منفرد شناخت کے سبب پہچانی گئی۔

وقت بدلتا رہا اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ جامعہ ترقی کے منازل طے کرتا رہا۔ مارچ 1935ء میں جامعہ جنوبی دہلی کے غیر رہائشی علاقے اوکھلا منتقل ہوئی۔ نئے حرم جامعہ میں کتب خانہ، جامعہ پریس اور مکتبہ کے علاوہ تمام شعبے منتقل کر دیئے گئے تھے۔ اسے ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا جہاں مذہبی، اخلاقی، اعلیٰ اور ترقی پسند تعلیم بانیان ادارہ کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اسے اس ادارہ کا نشان امتیاز تصور کیا جائے گا کہ اس نے ہماری قومی تحریک آزادی کے بطن سے جنم لیا اور اسے بیک وقت مولانا آزاد، علامہ اقبال اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم دانشوروں کی سرپرستی حاصل رہی۔ ان عبقری شخصیات کو چڑھتے سورج کی طرح یہ یقین تھا کہ جامعہ ملک و قوم کے طالبان علوم کی علمی پیاس بجھائے گا۔ ان کا یہ یقین حقیقت کے سانچے میں ڈھلتا رہا۔


1979 میں شیخ الجامعہ کا منصب سنبھالنے والے انور جمال قدوائی نے جامعہ میں ایشیا کا سب سے بڑا ماس کمیونکیشن ریسرچ سنٹر قائم کر کے جامعہ کو بدلتی ہوئی دنیا میں آنے والے زمانے کے جدید ذرائع ابلاغ کے انقلاب کے لیے تیار کیا۔

معمار جامعہ کی فہرست میں ایک اہم نام پروفیسر مشیرالحسن کا بھی ہے جنھوں نے جامعہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بے شمار علمی مراکز عطا کیے۔ جامعہ کی ذاکر حسین لائبریری اور فیکلٹی آف ڈینٹیسٹری کی پرشکوہ عمارتیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔

سال گزشتہ پروفیسر نجمہ اختر کی شکل میں پہلی بار کسی خاتون کو جامعہ کی سربراہی تفویض کی گئی۔ پروفیسر نجمہ اختر تعلیمی نظم و نسق کا عملی اور نظری دونوں تجربہ رکھتی ہیں۔ یہ بات ان کے لیے مقام فخر ہے کہ انہی کی سربراہی میں جامعہ ایک صدی کا سفر مکمل کرنے جا رہی ہے۔ دعاء ہے کہ قدیم و جدید علمی روایات کا حامل یہ عظیم ادارہ ترقی کی ارفع منزلیں طے کرے اور جامعہ کا پرچم فضاؤں میں یوں ہی لہراتا رہے۔

(ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاذ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Oct 2020, 1:11 PM