طالبان کے ساتھ مغربی مذاکرات، پاکستان اور بھارت بھی
افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا اب دنیا کے لیے اور افغان عوام کے لیے بھی بدقسمتی کی بات ہو گی۔ اس سے افغان عوام کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
اوسلو میں ہونے والی ملاقات میں طالبان سے ان وعدوں کو پورا کرنے کو کہا گیا، جو انہوں نے عالمی برادری سے کیے ہیں۔ طالبان کے نمائندوں نے عالمی سفارت کاروں کے درمیان ہی بھارت اور پاکستان کے خصوصی نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ناروے کی حکومت افغانستان سے متعلق اوسلو میں امن کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تعطل کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی، جس میں مغربی ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان کے نمائندوں نے بھی ایک ساتھ طالبان سے ملاقات کی۔
یہ پہلا موقع تھا جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھارت اور پاکستان کو کسی یورپی ملک میں مدعو کیا گیا ہو، حالانکہ دونوں ملک اس سے پہلے روس کی میزبانی میں ماسکو فارمیٹ اور قطر کی میزبانی میں دوحہ میں اسی طرح کی کوششوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
کن امور پر زور دیا گیا؟
میڈیا میں اس کانفرنس سے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اس کے مطابق اس کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا اور طالبان انتظامیہ پر اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ اجلاس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے افغان طالبان پر ایک جامع حکومت تشکیل دینے، دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اٹھانے جیسے موضوعات پر کھل کر بات کی۔
ناروے کی میزبانی میں 13 جون سے 15 جون تک ہونے والے اس تین روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ، پاکستان، قطر، امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک کے سفیروں نے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے آصف علی درانی نے کی۔
افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں
اوسلو میں سول سوسائٹی کے کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باوجود افغان طالبان کے دوسرے درجے کا وفد بھی وہاں پر موجود تھا۔ افغان ڈائسپورا گروپ سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں اس میں طالبان کی شرکت کی مخالفت کر رہی تھیں۔
تاہم ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی کہ اوسلو فورم میں افغانستان کے تین سرکاری عہدیدار موجود تھے اور کوئی ''اعلیٰ ترین قیادت اس میں شرکت نہیں کر رہی ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اس میں ملک کے ''بڑے چیلنجوں '' کے بارے میں بات کی جا رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ''اب افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا ہمارے لیے اور افغان عوام کے لیے بھی بدقسمتی کی بات ہو گی۔ اس سے افغان عوام کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور یہ ملک میں آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) جیسے دہشت گرد گروہوں کی تعمیر کا باعث بن سکتی ہے۔''
ناروے نے گزشتہ برس جنوری میں بھی افغان اسٹیک ہولڈرز کی میزبانی کی تھی۔ اس وقت افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ تاہم اس بار افغان طالبان کی شرکت کو بظاہر کم کر دیا گیا کیونکہ سول سوسائٹی کے کارکنوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ماضی کے برعکس اس بار پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے بین الاقوامی اتفاق رائے پر زور دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ جب افغان طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے، تو اس وقت پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی ایسے تین ممالک تھے جنہوں نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
افغانستان کے حوالے سے کئی امور پر بھارت اور پاکستان کے نکتہ نظر میں کافی اختلافات ہیں۔ نئی دہلی کے لیے تو طالبان کے افغانستان میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تاہم اس کے باوجود نئی دہلی نے جون 2022 میں کابل میں اپنا مشن دوبارہ کھول دیا تھا اور وہاں امداد اور ترقیاتی اقدامات کی نگرانی کے لیے ایک ''تکنیکی ٹیم'' کو بھی برقرار رکھا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے اوسلو میں ہونے والی اس بات چیت پر ابھی تک کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔