دنیا بھر کی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے
کیوبا، نکاراگوا اور میکسیکو کی پارلیمان میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین قانون ساز ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اس ضمن میں صنفی برابری حاصل کر لی ہے۔
جرمن قانون سازوں میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین ہیں، تاہم پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کے معاملے میں ملک 47ویں نمبر پر ہے۔ روانڈا سمیت دنیا کے کئی ممالک کی مقننہ میں اب مردوں سے زیادہ خواتین ہیں۔منگل کے روز جاری ہونے والی بین پارلیمانی یونین (آئی پی یو) کے ایک انڈیکس کے مطابق جرمنی کی قومی پارلیمان (بنڈسٹاگ) خواتین کی نمائندگی کے لحاظ سے دنیا کے 184 ممالک میں 47 ویں نمبر پر ہے۔
جرمن وفاقی شماریات کے دفتر، ڈیسٹاٹیس کا کہنا ہے کہ بنڈسٹاگ (قومی پارلیماں) کی تقریباً 35 فیصد قانون ساز خواتین ہیں۔ دس برس پہلے کے مقابلے میں جرمنی میں خواتین کی نمائندگی میں ایک فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ آئی پی یو نے اس حوالے سے سن 2014 کی اپنی فہرست میں عالمی سطح پر جرمنی کو 21 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات افسوسناک ہیں، پاکستانی فوج
تازہ اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
بین پارلیمانی یونین کی رواں برس کی درجہ بندی یہ واضح طور پر بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی میں بڑی کمی آئی ہے۔ البتہ خواتین کا تناسب بڑھ بھی رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر خواتین رکن پارلیمان کا مجموعی تناسب تقریبا ًایک چوتھائی سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔
سن 2004 سے اب تک یہ تعداد 10 فیصد کی رفتار سے بڑھتی رہی ہے، لیکن سن 2014 کے بعد سے اس میں صرف تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ سن 2014 میں دنیا کے تمام قانون ساز اداروں میں خواتین نمائندوں کا حصہ 22.1 فیصد تھا۔
کون سے ممالک سر فہرست ہیں؟
بین پارلیمانی یونین کی تازہ درجہ بندی کے حساب سے دنیا کے دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں روانڈا کی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی اول نمبر پر ہے۔ اس مشرقی افریقی ریاست کی پارلیمان میں تقریباً 61 فیصد خواتین قانون ساز پائی جاتی ہیں۔
کیوبا، نکاراگوا اور میکسیکو کی پارلیمان میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین قانون ساز ہیں۔ انڈورا اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس ضمن میں صنفی برابری حاصل کر لی ہے۔ دوسری جانب عمان، یمن اور بحرالکاہل کی جزیرے والی ریاست تووالو کی پارلیمنٹ میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہے۔ دو سطحی پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک پر تحقیق کرتے ہوئے، آئی پی یو نے ایوان بالا کے بجائے ایوان زیریں یا اس ایوان پر توجہ مرکوز کی، جس کے ارکان براہِ راست عوام منتخب کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔