پاکستان: عمران خان اور ان کی پارٹی کا اب کیا ہو گا؟

عام پاکستانی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ لیکن دیکھنا ہے کہ یہ عام پاکستانی بیلٹ کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کریں گے یا نہیں۔

پاکستان: عمران خان اور ان کی پارٹی کا اب کیا ہو گا؟
پاکستان: عمران خان اور ان کی پارٹی کا اب کیا ہو گا؟
user

Dw

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ریاستی راز افشا کرنے یا سائفر کیس اور بدعنوانی سے متعلق مقدمات میں برسوں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان فیصلوں نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔اب جب کہ پاکستان میں عام انتخابات میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کے مستقبل اور ان کی قانونی جنگ ایک بار پھر سب سے اہم موضوع بن گیا ہے۔

پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے سکریٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔"


بدھ کے روز اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بدعنوانی کے الزام میں چودہ چودہ سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خان نے سن 2018 سے سن 2022 تک وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے کروڑوں روپے کے سرکاری تحائف فروخت کیے تھے۔

اس سے ایک روز قبل ہی عدالت نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کو سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کیس سے مراد ایک سفارتی پیغام یا سائفر ہے، جس کے بارے میں عمران خان کا دعوی ہے یہ اقتدار سے ان کی بے دخلی میں امریکہ کے کردار کا ثبوت ہے۔


عمران خان کو اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعہ اقتدار سے ہٹادیا گیا تھا۔ تاہم اکہتر سالہ سابق کرکٹ اسٹار سے سیاست داں بننے والے عمران خان کا الزام ہے کہ ملک کے طاقت ور فوجی جرنیلوں نے انہیں برطرف کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔ پاکستانی فوج اور امریکہ دونوں ہی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

متنازعہ فیصلے؟

عدالت کے دو متواتر فیصلے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے صرف دس دن پہلے آئے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق ان فیصلوں نے آئندہ انتخابات کو کسی حد تک غیر معتبر اورغیر قانونی بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے عہدیداروں اور انسانی حقوق گروپوں نے عمران خان کے خلاف دونوں مقدمات میں سماعت کے طریقہ کار اور عدالت کی انصاف پسندی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔


پی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ اہلکار زلفی بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کے وکلاء کو ان کی طرف سے دلائل پیش کرنے یا گواہوں سے جرح کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے تاہم کہا کہ یہ فیصلہ "نچلی عدالت سے آیا ہے اور اس کے خلاف اعلیٰ عدالت اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جا چکی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ انصاف ملے گا۔"

انہوں نے نچلی عدالت کو "واضح طور پر ہیرا پھیری کرنے والا" قرار دیا اور کہا کہ فیصلہ "پہلے سے ہی طے شدہ" تھا۔ انہوں نے مزید کہا جن دستاویزات کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف سائفر کیس چلایا جا رہا ہے، حکومت انہیں پہلے ہی "ڈی کلاسیفائی" کرچکی ہے۔ لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں عمران خان کے لیے دس سال کی سزا کافی "نرم" ہے کیونکہ سرکاری رازوں سے متعلق مقدمات میں مجرم کو بالعموم عمر قید یا موت کی سزا ہوتی ہے۔


کیا مقبولیت انتخابی فتح میں بدل سکے گی؟

پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ سزاؤں کا ان کی پارٹی پر ''مثبت اثر'' پڑے گا۔ حسن کا کہنا تھا،"ہم پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے والے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کو یقینی بنائیں گے اور ہم اس عمل میں لوگوں کی آزادانہ سیاسی شرکت کے لیے جدوجہد کریں گے۔"

عمران خان کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کے باوجود رائے عامہ کے کئی جائزوں میں پی ٹی آئی اپنی اہم حریف جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے آگے نظر آرہی ہے۔ حالانکہ عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی سزا کے بعد ان کے حامی آٹھ فروری کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے؟ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے متعدد شہریوں سے بات چیت کی، جن کا کہنا تھا کہ ان کے ووٹ کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ ملک کی طاقتوں نے عمران خان کو سیاست سے باہر کردینے کا پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے۔


کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں لکچرار حیدر نظامی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "آنے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے خراب ترین انتخابات ہیں اور بالخصوص عدالتی طریقہ استعمال کرکے عمران خان اور ان کی پارٹی کو انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش سے پورے انتخابی عمل اور اس کی قانونی حیثیت پر ایک گہرا سایہ پڑ گیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا،"عمران خان ملک کے ایک اہم طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، خاص طورپر وہ جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔ اس لیے یہ عدالتی فیصلے اس طبقے کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے مترادف ہیں۔"

بہر حال توشہ خانہ کیس میں بدھ کے روز عدالت کے فیصلے نے عمران خان، جن کا بنیادی سیاسی ایجنڈا پاکستان سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے، کی ایک "صاف سیاست دان" کی شبیہ کو کسی حد تک داغدار کردیا ہے۔


کیا عمران خان کی سیاسی واپسی ہو سکے گی؟

عمران خان کو بہت سے دیگر قانونی مقدمات کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ان کے خلاف مزید عدالتی فیصلے متوقع ہے۔ لیکن یہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل اب بھی لوٹ سکتا ہے اگر وہ طاقت ور فوجی رہنماوں کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو درست کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے حارث خلیق کا کہنا تھا،"عمران خان کو فوج نے مین اسٹریم کی دیگر سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک پروجیکٹ کے طور پر آگے بڑھا یا تھا اور یہ پارٹی اب بھی باقی رہ سکتی ہے۔" انہوں نے کہا کہ "اگر فوج کی موجودہ پسندیدہ جماعتوں کی جرنیلوں سے ان بن ہو جاتی ہے تو عمران خان مستقبل میں ایک بار پھر ان (فوج) کی پسند بن سکتے ہیں۔ منگل کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہے کہ عمران خان اگلے وزیر اعظم نہیں بنیں گے لیکن سیاست میں ان کا مستقبل ضرور ہے۔"


بہت سے عام پاکستانی بھی انہیں خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ لیکن یہ عام پاکستانی شہری آٹھ فروری کو بیلٹ کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کریں گے یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔