قطری ثالثوں کا ہدف عیدالفطر سے قبل غزہ کی جنگ میں فائر بندی
اب اس بارے میں توقعات زیادہ ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ فائر بندی مسلمانوں کے دو اہم ترین مذہبی تہواروں میں سے ایک یعنی عیدالفطر سے پہلے پہلے ممکن ہو سکتی ہے۔
غزہ کی جنگ میں سیزفائر کے لیے کوشاں قطری ثالثوں کو امید ہے کہ اس خونریز تنازعے میں رمضان کے اسلامی مہینے کے خاتمے اور عیدالفطر کے تہوار سے قبل اسرائیل اور حماس کے مابین ایک فائر بندی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔مصری دارالحکومت قاہرہ سے بدھ 13 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایک اعلیٰ قطری اہلکار نے آج بتایا کہ یہ خلیجی عرب ریاست اسرائیل اور حماس کے مابین عملی فائر بندی کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے اور امید ہے کہ رمضان کے اسلامی مہینے کے دوران ہی فریقین کے مابین سیز فائر ڈیل طے پا سکتی ہے۔
پیچیدہ صورت حال کے باوجود ثالثی کاوشیں جاری
مذہبی طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تقدیس کا حامل رمضان کا مہینہ اسی ہفتے شروع ہوا تھا اور ماہ رمضان کے اختتام پر عیدالفطر کا اسلامی تہوار ممکنہ طور پر دس اپریل کو منایا جائے گا۔ اس تناظر میں دوحہ میں قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ قطر اسرائیل اور حماس دونوں کو ہی ایک سیزفائر ڈیل پر آمادہ کرنے کی پوری کوششیں کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : پائلٹ، کیبن عملہ ڈیوٹی کے دنوں میں روزے نہ رکھیں، پی آئی اے
وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی انسانی بحرانی صورت حال اور حالات کی بہت پیچیدہ نوعیت کے باوجود قطر کی یہ کاوشیں مسلسل جاری ہیں کہ غزہ پٹی میں جنگ میں فائر بندی ہونا چاہیے۔‘‘ قطر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کا ایک بڑا اتحادی ہے اور وہ کئی ہفتوں سے ایک ایسی فائر بندی کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ میں سات اکتوبر سے جاری جنگ میں سیز فائر ممکن ہو سکے۔ قطری ثالث اس بارے میں اپنی کوششیں امریکہ اور مصر کی مدد سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رمضان سے پہلے فائر بندی کی گزشتہ امیدیں
رمضان کے مہینے کے آغاز سے پہلے بین الاقوامی سطح پر یہ امید کافی زیادہ تھی کہ اس مہینے کے شروع ہونے سے پہلے پہلے غزہ میں فائر بندی عملاﹰ شروع ہو جائے گی۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا اور اب اس بارے میں توقعات زیادہ ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ فائر بندی مسلمانوں کے دو اہم ترین مذہبی تہواروں میں سے ایک یعنی عیدالفطر سے پہلے پہلے ممکن ہو سکتی ہے۔
ان فائر بندی کوششوں کے پیچھے سرگرم ممالک کے سفارتی حلقوں کے مطابق اسرائیل اور حماس کے مابین سیزفائر سے متعلق جو نکات اب تک متنازعہ ہیں، ان میں یہ کلیدی نکتہ بھی شامل ہے کہ فائر بندی کا دورانیہ کتنا ہو گا۔ حماس، جس کے سات اکتوبر کے روز اسرائیل پر دہشت گرادنہ حملے کے ساتھ یہ جنگ شروع ہوئی تھی اور جسے یورپی یونین کے علاوہ امریکہ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، چاہتی ہے کہ فائر بندی غیر معینہ عرصے تک کے لیے کی جانا چاہیے۔
ساتھ ہی حماس کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ اس فائر بندی کے ساتھ ہی اسرائیل غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے سے اپنے تمام فوجی بھی واپس بلا لے۔ اسرائیل اب تک نہ تو غیر معینہ مدت کے لیے فائر بندی پر تیار ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ وہ غزہ سے اپنے تمام فوجی دستے ایسی کسی ڈیل کےنتیجے میں واپس بلا لے گا۔
جنگ میں اب تک ہلاکتیں
غزہ کی جنگ گزشتہ برس حماس کے اسرائیل میں حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباﹰ ساڑھے گیارہ سو افراد مارے گئے تھے اور حماس کے جنگجو جاتے ہوئے قریب ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس حملے کے فوری بعد اسرائیل کی طرف سے غزہ میں حماس کے خلاف شروع کی جانے والی اور اب تک جاری زمینی اور فضائی عسکری کارروائیوں میں غزہ میں وزارت صحت کے تازہ ترین بیانات کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد مزید اضافے کے ساتھ اب 31,272 ہو گئی ہے۔
ان ہلاک شدگان میں اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی تھی۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اس فلسطینی علاقے میں اسرائیلی کارروائیوں میں مزید کم از کم 88 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس جنگ میں، جو اب اپنے چھٹے مہینے میں ہے، غزہ پٹی میں تاحال 73,024 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی جنگ کے باعث غزہ پٹی میں وسیع تر تباہی کے ساتھ ساتھ وہاں ایک بڑا انسانی بحران بھی پیدا ہو چکا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔