فرانس: حجاب کے تنازعے پر طالبہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ

ہیڈ ٹیچر نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ طالبہ کو فرانسیسی قانون کے مطابق اسکول کے اندر اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہیے۔پھر سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

فرانس: حجاب کے تنازعے پر طالبہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ
فرانس: حجاب کے تنازعے پر طالبہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ
user

Dw

فرانس کی حکومت کا کہنا ہے کہ جس نو عمر مسلم طالبہ نے اسکارف کے حوالے سے تلخ بحث کے دوران اپنے ہیڈ ٹیچر پر مارنے پیٹنے کا 'جھوٹا الزام' لگایا تھا، اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فرانس کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جس نو عمر مسلم لڑکی نے اسکارف کے حوالے سے ہونے والی گرما گرم بحث کے دوران اپنے ہیڈ ٹیچر پر مارنے کا 'جھوٹا الزام'عائد کیا تھا، اس کے خلاف ریاست کی طرف سے مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ہیڈ ٹیچر نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ طالبہ کو فرانسیسی قانون کے مطابق اسکول کے اندر اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہیے۔ البتہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ فرانس کے اسکولوں میں دو اساتذہ کے قتل کے بعد سے، اسلام پسندوں ک جانب سے اس طرح کے خطرات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سن 2020 میں پیرس کے ایک مضافاتی علاقے میں سڑک پر ہی ایک استاد سیموئل پیٹی کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔ اس کے پانچ ماہ قبل اراس میں اسکول کے اندر ہی ایک اور ٹیچر ڈومینک برنارڈ کو قتل کر دیا گیا تھا۔


اسکارف کے حوالے سے نیا تنازعہ کیا ہے؟

جب اسکارف کے حوالے سے تازہ تنازعہ منظر عام پر آیا تو، تو بعض افراد کی جانب سے ٹیچر کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسی کے بعد پیرس میں ایک اسکول کے ہیڈ ٹیچر نے اپنے استعفے کا اعلان گزشتہ جمعہ کے روز ایک ای میل کے ذریعے کیا۔ البتہ استاد کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ ہیڈ ٹیچر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اپنی اور ادارے کی حفاظت کی فکر کرتے ہوئے، بالآخر میں نے اپنی ذمہ داریاں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں آپ کے ساتھ کافی محنت کے سات برس گزارنے اور 45 سال عوامی تعلیم کے بعد اسے چھوڑ رہا ہوں۔'' اسکول میں اسکارف کا یہ تنازعہ گزشتہ 28 فروری کو اس وقت پیش آیا تھا، جب ہیڈ ماسٹر نے تین مسلم طالبات سے کہا کہ وہ اپنے سر سے نقاب اتار کر ملک کے قانون کی پابندی کریں۔ اس حکم کی دو طالبات نے تو تعمیل کی لیکن تیسری طالبہ نے اسکارف اتارنے کا حکم مسترد کر دیا، جس پر جھگڑا کھڑا ہو گیا۔


اس کے چند روز بعد سوشل میڈیا پر ہیڈ ماسٹر کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ قتل کی دھمکی کے سلسلے میں دو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ البتہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے مذکورہ اسکول کے ارد گرد سکیورٹی میں اضافہ کیا اور گشت کو بڑھا دیا گیا۔ ملک کے وزیر تعلیم نکول بیلوبیٹ نے اسکول کا دورہ بھی کیا۔

طالبہ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیوں؟

فرانس میں حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ اسکول کے ہیڈ ٹیچر نے لڑکی کو مارا تھا۔ وزیر اعظم گیبریل اطال کا کہنا ہے کہ طالبہ کی جانب سے مارنے کے جھوٹے الزامات لگانے کی وجہ سے ہی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


انہوں نے کہا، ''ریاست۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ ایسے اہلکاروں کے ساتھ کھڑی ہو گی، جو سیکولرازم کی خلاف ورزیوں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلام پسندوں کے داخلے کی کوششوں کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں۔'' فرانس میں بائیں اور دائیں دونوں خیالات کے سیاست دانوں نے اس بات پر غم و غصے کا اظہار کیا کہ انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مہم کے ذریعے ایک قابل احترام استاد کا کیریئر ختم کر دیا گیا۔

دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی سخت گیر رہنما مارین لی پین نے سوشل میڈیا ایکس پر کہا، ''یہ حکومت ہمارے اسکولوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔'' ایک اور دائیں بازو کی سخت گیر رہنما نے کہا، ''یہ ریاست کی شکست ہے۔۔۔۔ اور اسلام پسندی کے حامیوں نے مزید طاقت حاصل کر لی۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔