اولاف شولس: جرمنی کے خاموش چانسلر
جرمن چانسلر اولاف شولس کوایمانداری اور شفاف انداز میں بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں۔
ایک طویل عرصے بعد جرمنی کا کوئی چانسلر اتنا غیر مقبول ہوا ہے، جتنا موجودہ چانسلر اولاف شولس ہو چکے ہیں۔ کیا ان کا انداز گفتگو ہی اس کی وجہ ہے یا عوامی سطح پر اس غیر مقبولیت کے کچھ اور عوامل بھی ہیں۔عالمی، علاقائی یا اہم ملکی معاملات ہوں، بہت سے جرمنوں کا خیال ہے کہ ان کے چانسلر اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلا سکے ہیں۔ ان کی خاموشی پر عوام میں ایک بے چینی اور ناراضگی بھی نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
مشرق وسطی کا تنازعہ ہو، یوکرین اور روس کی جنگ یا جرمنی میں موجودہ اقتصادی صورتحال، ان سبھی معاملات پر جرمن شہری ایک زیادہ فعال اور متحرک حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چانسلر خاموشی توڑتے ہوئے ٹھوس انداز گفتگو اختیار کریں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ( ایس پی ڈی) کے سربراہ اولاف شولس سن 2021 سے چانسلر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ ان کی سیاسی پارٹی نے دو دیگر سیاسی جماعتوں ماحول دوست گرین پارٹی اور بزنس فرینڈلی فری ڈٰیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی تھی۔ بے شک اس اتحادی حکومت کو چلانا آسان نہیں ہے لیکن سیاست میں عوامی توقعات کا تو خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : یہودیوں پر حملہ یعنی جرمن عوام پر حملہ: جرمن چانسلر کا بیان
قبل ازیں شاید کسی بھی جرمن حکومت کو اتنے زیاد بحرانوں کا ایک ساتھ ہی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ روس کے یوکرین پر جنگ مسلط کرنے سے جرمنی میں بھی توانائی کا بحران دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی اور افراط زر نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حکومت نے فوری طور پر مالیاتی مدد فراہم تو کردی لیکن اب حکومتی خزانے خالی ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں کسانوں نے ہڑتال شروع کر دی۔ وہ ٹریکٹرز اور زرعی آلات کے لیے فیول سبسڈی کی کٹوتی پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ کسان اپنے ٹریکٹرز اور ٹرک نکال کر شہروں کی سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ مہنگائی اور افراط زر کی شدت کی وجہ سے دیگر صنعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس احتجاج کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان میں ریلوے ملازمین کی ہڑتال حکومت اور عوام کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : جرمنی میں جوہری توانائی کی کہانی ختم ہو چکی ہے، جرمن چانسلر
شولس کی حکومت کیا کر رہی ہے؟
اب ایسا بھی نہیں کہ جرمن حکومت ان بحرانوں سے نمٹنے کی خاطر کچھ نہیں کر رہی ہے۔ لیکن عوامی سیاسی ادارک ہی حقیقت ہوتا ہے اورعوام کے تحفظات حکومتیں بھی پلٹ دیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جرمن چانسلر اولاف شولس کی اتحادی حکومت اپنے انتخابی معاہدے کے تمام تر اہداف کو حاصل کر چکی ہے۔ تاہم گرین پارٹی اور ایف ڈی پی کے مابین سیاسی اختلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اورلوگوں کو صرف یہی نظر آ رہا ہے۔
جنوری کے وسط میں ڈی ڈبلیو کی جانب سے برلن کی سڑکوں پر ایک سروے کے دوران ایک خاتون سے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور افراط زر کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو سن ہی نہیں رہی ہے۔ اس خاتون کے مطابق، ''یہ احساس ہوتا ہے کہ اب جرمنی رہنے کی جگہ رہی ہی نہیں ہے۔‘‘ ریسرچ انسٹی ٹیویٹ انفراٹیسٹ ڈی ماپ کے ایک تازہ سروے کے مطابق اس وقت صرف انیس فیصد جرمن ووٹرز اولاف شولس کی حکومت سے مطمئن ہیں۔ اس ادارے نے سن 1997 میں اس طرح کے عوامی جائزے کرانا شروع کیے تھے اور یہ پہلی بار ہے کہ کسی جرمن چانسلر کی عوامی مقبولیت اتنی گری ہو۔
ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمن چانسلر کو چاہیے کہ عوام کو ٹھیک ٹھیک اور واضح انداز میں بتائیں کہ اس مہنگائی میں عوام کو ریلیف دینے کی خاطر ان کی حکومت کی پالیسیاں کیا ہیں، ''ان کا بیان مختصراوراعدادوشمار پر مبنی ہوتا ہے اور وہ تب ہی بیان دیتے ہیں، جب وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن وہ اس طرح عوام کو قائل کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
'جرمن چانسلرعوام کے تحفظات دور کریں‘
برلن میں واقع جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ (ڈی آئی ڈبلیو) کے صدر مارسل فراٹزشر کے مطابق چانسلر شولس کو شفاف ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا، ''انہیں ایمانداری اور شفاف انداز میں بتانا چاہیے کہ ان کی حکومت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں۔ انہیں ایک وژن پیش کرنا چاہیےاورعاجزی دیکھانی چاہیے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ انہیں لوگوں سے مخاطب ہونا چاہیے، ان کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے، بشمول کاروباری افراد کا۔‘‘
اکیڈمی فار پولیٹیکل ایجوکیشن کی ڈائریکٹر اُورزلا مؤنچ کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے کہ چانسلر شولس کا پیغام عوام تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اولاف شولس کو سب سے پہلے عوامی تحفظات کو دور کرنا چاہیے، ''بالخصوص ایک ایسے چانسلر کے لیے، جس کے بارے میں عوام کا خیال ہے کہ وہ اتنے زیادہ مضبوط اور خود اعتماد نہیں جتنا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘
ناقدین کا یہ کہنا بھی ہے کہ چانسلر شولس بین الاقوامی منظر نامے پر قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں۔ وہ اسی ماہ داووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں بھی شریک نہ ہوئے جبکہ انہوں نے اس اہم عالمی فورم میں غیر حاضری کی وجہ تک نہیں بتائی۔
اس صورتحال میں یہ عجب نہ ہو گا کہ ان کی اپنی ہی سیاسی پارٹی میں ان کے خلاف ایک ناراضی پیدا ہو چکی ہو۔ جرمن میگزین ڈیر اشپیگل نے رپورٹ کیا ہے کہ ایس پی ڈی کی خفیہ میٹنگز میں یہ منصوبہ زیر بحث ہے کہ سن 2025 کے الیکشن میں اولاف شولس کی جگہ وزیر دفاع بورس پیسٹورئیس کو چانسلر کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا جائے۔ جرمن چانسلر اولاف شولس اس رپورٹ کے بارے میں بھی خاموش ہی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔