’مانسہرہ میں ہار اور لاہور میں جیت بھی مشکوک ہے‘
لاہور میں ہونے والی زرداری شہباز ملاقات میں پیپلز پارٹی کی شرائط کی لمبی لسٹ شہباز شریف کو دے دی گئی ہے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں نئی حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ عروج پر ہے، سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے سابق صدر آصف زرداری سے ایک اہم ملاقات کی ہے۔ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ انتخابات کے حیران کن نتائج کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کا خوف پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کو قریب تو لا سکتا ہے لیکن اس بیل کا منڈھے چڑھنا بہت آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کی صورت میں انہیں پاکستان کی صدارت، اور چیئرمین سینٹ کی پوزیشن دینے کے ساتھ ساتھ انہیں وفاق اور پنجاب میں اہم وزارتیں بھی دی جائیں ۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی یہ بھی چاہتی ہے کہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو نون لیگ سپورٹ کرے۔ '' اگر پاکستان مسلم لیگ کو یہ شرائط منظور نہ ہوئیں تو پھر پیپلز پارٹی مریم نواز کو چیف منسٹر پنجاب بنا کر بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے اس صورت میں پارٹی اپنی باقی تمام شرائط سے دست بردار ہو سکتی ہے اور نواز شریف کو صدر پاکستان بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق لاہور میں ہونے والی زرداری شہباز ملاقات میں پیپلز پارٹی کی شرائط کی لمبی لسٹ شہباز شریف کو دے دی گئی ہے۔ انہوں نے مذاکرات جاری رکھنے اور میاں نواز شریف اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یاد رہے ڈی ڈبلیو کو خبر دینے والے ذریعے نے بتایا کہ شہباز شریف کو یہ بھی بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کی سیٹیں اس کی اپنی ہیں لیکن مسلم لیگ کو ان نتائج تک پہنچانے میں کئی ''دوسری کوششیں‘‘ بھی شامل ہیں اس لیے ان کے حلقوں کے نتائج بھی چیلنج ہو رہے ہیں۔ '' ایک ایسا شخص جو مانسہرہ سے ہار گیا اور اس کی لاہور سے جیت بھی مشکوک ہے، اس کا وزیر اعظم بنایا جانا مختلف حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنے گا۔‘‘
جاوید فاروقی کے بقول پاکستان کے طاقتور حلقے پی ڈی ایم کو اقتدار دے کر نئے ھائبرڈ نظام کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں شہباز شریف کی وزارت عظمی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ '' اس وقت پیپلز پارٹی کے پاس اتحادی منتخب کرنے کے کئی آپشنز ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے پاس مرکز میں حکومت بنانے کے نسبتاً کم آپشنز ہیں۔ اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار ان حلقوں کا ہوگا جو عام طور پر پاکستان میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘
ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان فرخ بصیر کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی بھی بات حتمی نہیں ہے۔ سابق صدر زرداری ابھی آزاد امیدواروں کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔ ابھی آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی وابستگی کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی بات آگے بڑھ سکے گی۔
پنجاب کی دو سو چھیانوے صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوئے اس رپورٹ کے فائل کرنے تک دو سو ترانوے حلقوں کے غیر حتمی نتائج آ چکے ہیں۔ یہاں حکومت بنانے کے لیے ایک سو انچاس سیٹوں کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں ایک سو سینتیس آزاد امیدوار ( جن میں غالب اکثریت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ لوگوں کی ہے) جیتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کو ایک سو پینتیس اور پیپلز پارٹی کو صرف دس سیٹیں ملی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف دونوں پنجاب میں اپنی اپنی حکومت بنانے کے دعویدار ہیں۔ جاوید فاروقی کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت بننے کےامکانات زیادہ ہیں۔
پنجاب میں اس الیکشن میں لاہور سے بلاول بھٹو ہار گئے، یہاں خواجہ سعد رفیق اور حافظ نعمان بھی نہیں جیت سکے۔ ادھر جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین اپنی دونوں سیٹوں پر شکست کھا گئے۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی ہار گئیں۔ گوجرانوالہ میں خرم دستگیر اور شیخوپورہ میں جاوید لطیف اور گجرات میں پرویز الہی اور لاہور میں عالیہ حمزہ کو شکست ہوئی۔
میاں محمد نواز شریف مانسہرہ سے اپنی سیٹ ہار گئے تھے۔ اگرچہ ان کے لاہور سے جیتنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد نے ان کی کامیابی کو چیلنج کر دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ممتاز وکیل سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر ان کے حلقے کے نتائج کا اعلان کرنے سے بھی الیکشن کمیشن کو روک دیا ہے۔
پنجاب میں قومی اسمبلی کی سیٹین جیتنے والے لوگوں میں احسن اقبال، شہباز شریف، لطیف کھوسہ حمزہ شہباز، مریم نواز، میاں اظہر، یوسف رضا گیلانی اور موسی گیلانی شامل ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف اور عون چوہدری سمیت درجنوں کامیاب امیدواروں کی کامیابی کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں انتخابی نتائج روکنے اور مبینہ طور پر تبدیل کرنے کے خلاف احتجاج بھی ہوا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔