چلی: جنگلاتی آگ میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے قدرتی آفات جیسے جنگل کی آگ کے زیادہ عام ہونے کا امکان ہے۔
چلی کے صدر گیبریل بوریک کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو'بہت بڑے المیے' کا سامنا ہے۔ ملک کے حکام نے جنگلات میں لگنے والی آگ میں اب تک ایک سو بارہ اموات کی تصدیق کردی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔چلی کے صدر گیبریل بوریک نے خبر دار کیا کہ ہلاکتوں میں " نمایا ں طورپر" اضافہ ہوگا کیونکہ وسطی علاقے والپارائسو میں آگ اب بھی بھڑ ک رہی ہے۔
بوریک نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی اپنی تقریر میں کہا،"پورا چلی مرنے والوں کے دکھ اور سوگ میں ڈوب گیا ہے۔ ہمیں ایک بہت بڑے المیے کا سامنا ہے۔" حکام نے بتایا کہ وینا ڈیل مار نامی مشہور ساحلی تفریحی مقا م پر شدید نوعیت کی آگ بھڑ ک اٹھی ہے۔
شہر کے مشرقی کنارے پر واقع کئی محلے، جو اپنے سالانہ بین الاقوامی موسیقی میلے کے لیے معروف ہیں، آگ کے شعلوں میں تباہ ہوگئے اور وہاں کے رہائشیوں کو اپنے گھروں کو جلتا ہوا چھوڑ کر دوسری جگہ جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ صدر بوریک نے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا ہے اور ہر ممکن راحت اور امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم سب ایک ساتھ ایمرجنسی کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس وقت لوگوں کی زندگی بچانا ہی ہماری اولین ترجیح ہے۔"
آگ کیسے لگی؟
وزیر داخلہ کیرولینا توہا نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم تین سو افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ توہا نے کہا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ والپارائسو کے قریب جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : بھارت ہزاروں مزدوروں کو اسرائیل کیوں بھیج رہا ہے؟
ایک مقامی صحافی جان بارٹلیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکام نے آگ لگنے کے اسباب کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ انہوں نے کہا،"ایسا معلوم پڑتا ہے کہ کوئی چار یا پانچ مختلف مقامات پر آگ شروع ہوئی اور یہ بھی لگتا ہے کہ ان جگہوں پر جان بوجھ کر آگ لگائی گئی تھی۔"
ملکی نیشنل ڈیزاسٹر سروس کے مطابق اس لاطینی امریکی ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں اتوار تک تقریبا ً چھبیس ہزار ہیکٹیئر اراضی جل چکی تھی۔ حکام کے مطابق تقریباً چودہ سو فائر فا ئٹرز اور تیرہ سو فوجی اہلکاروں کے علاوہ اکتیس فائر فائٹنگ ہیلی کاپٹراور ہوائی جہاز آگ پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔
چلی میں گرمیوں کے مہینوں میں جنگل کی آگ لگنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال ملک کے جنوبی وسطی علاقے میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں تقریباً 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جب کہ 425,000 ہیکٹر سے زیادہ اراضی تباہ ہو گئی تھی۔ اس سال کی آگ موسم گرما میں گرمی کی لہر اور ایل نینو موسمی رجحان کی وجہ سے ہونے والی خشک سالی کی وجہ سے لگی ہے۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے قدرتی آفات جیسے جنگل کی آگ کے زیادہ عام ہونے کا امکان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔