’پتھر‘ کا عجیب و غریب پودا، جسے ڈھونڈنا آسان نہیں
افریقہ کے جنوبی علاقوں میں پائے جانے والے لیتھوپس کے پودوں کو بنیادی طور پر 'کیموفلاج پلانٹس‘ قرار دیا جاتا ہے، جو عام نظر میں صرف پتھر جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔
کیا کوئی پتھر جاندار بھی ہو سکتا ہے؟ کیا آپ نے اس کے بارے میں سنا ہے، جسے ’زندہ پتھر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی افسانوی کہانی نہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی کا راز کیا ہے؟لیتھوپس کو کنکریوں والا پودا یا زندہ پتھر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ رس دار پودا قدرتی طور پر چھوٹے چھوٹے 'پتھروں‘ کے اندر چھپا ہوتا ہے تاکہ کوئی اسے کھا نہ سکے۔
افریقہ کے جنوبی علاقوں میں پائے جانے والے لیتھوپس کے پودوں کو بنیادی طور پر 'کیموفلاج پلانٹس‘ قرار دیا جاتا ہے، جو عام نظر میں صرف پتھر جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ چونکہ ان پودوں کے بیروبی حصے کی مشابہت پتھر سے ہوتی ہے، اس لیے انہیں لیتھوپس کہا جاتا ہے۔ یہ نام یونانی زبان کے لفظ 'لیتھوس‘ اور 'اوپسیس‘ سے ماخوذ ہے۔ یونانی زبان میں لیتھوس کا مطلب 'پتھر‘ جبکہ اوپسیس کا 'مشابہت‘ کے ہیں۔ یعنی پتھر جیسا پودا۔
اس چھوٹے سے پتھر نما پودے کے دو پتے اور ایک انتہائی چھوٹا سا نہ نظر آنے والا تنا ہوتا ہے۔ اس کے پتے اور تنا زمین کے اندر ہی ہوتے ہیں جبکہ اس کا پتھر نما اوپری حصہ عیاں ہوتا ہے۔ اس پودے کی اسکن یا جلد اس قدر سخت ہوتی ہے کہ کوئی بھی کیڑا اسے کھا نہیں سکتا۔
ماحول سے مطابقت ہی زندگی کا راز
اس انتہائی چھوٹے پودے کی بقاء کا راز ماحول سے مطابقت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پودا چونکہ بیرونی طور پر پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے، اس لیے سخت موسم کے علاوہ کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
یہ بھی پڑھیں : عجیب و غریب پرندے نما ڈائنوسار کی دریافت پر سائنسدان حیران
یہ اس طرح نشوونما پاتے ہیں کہ ایک ہی پودا پتھروں کے متعدد جوڑوں کی طرح دیکھائی دیتا ہے۔ برطانوی ماہر نباتات ولیم جان برچیل نے سن 1811ء میں اس پودے کو دریافت کیا تھا۔ تب سے اس پودے کی متعدد اقسام دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے نئی دریافت سن 2006 میں ہوئی تھی۔ اب تک لیتھوپس کی مختلف رنگوں اور شکلوں والی 37 اقسام اور 145 انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ کچھ تو دیکھنے میں بالکل چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہی معلوم ہوتی ہیں۔
پانی کی بھی کم ضرورت
لیتھوپس کی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ انتہائی کم یا پانی کی عدم موجودگی میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ ماہر حیاتیات کے مطابق یہ انتہائی سخت حالات میں بھی پچاس برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کا تنا زیر زمین ہوتا ہے جبکہ جڑیں کافی لمبی ہوتی ہیں، جو نہایت آہستگی سے بڑھتی ہیں جبکہ اس کو مکمل طور پر کِھلنے میں تین برس کا عرصہ لگتا ہے۔
جب اندھیرا ہوتا ہے تو اس کے پتے پودے کو ڈھانپ دیتے ہیں تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ اس کی اسی قابلیت کی وجہ سے یہ پودا اپنے اندر پانی جمع کر لیتا ہے اور صحرائی علاقوں میں بھی یہ کئی ماہ تک پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔
بطور خوراک
لیتھوپس کے پودے کھائے بھی جاتے ہیں۔ تاہم انہیں ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔ ان کا ذائقہ ہری مرچ جیسا ہوتا ہے۔ نمبیبیا، بوسٹوانا، جنوبی افریقہ اور بالخصوص انگولا کے کچھ صحرائی سرحدی علاقوں میں ان کا پتہ چلانا آسان نہیں ہے۔ ان کو ڈھونڈنے کی خاطر ماہر آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم جب علم ہو جائے کہ یہ کہاں کھلے ہوئے ہیں تو لوگ اس عجیب و غریب پودے کو ہربل ادویات سازی کے علاوہ کھانوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔