ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا متوقع دورہ ترکی
ایرانی صدر اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق ایرانی صدر اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ غزہ تنازعے کے مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔سفارتی ذرائع اور ایران سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چوبیس جنوری بروز بدھ یعنی آج ایک روزہ سرکاری دورے پر ترکی پہنچیں گے، جہاں وہ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے مشرق وسطیٰ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں : حماس کے سربراہ اور ترک وزیر خارجہ کی ترکی میں ملاقات
سفارتی ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ رئیسی اس دورے کے دوران اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے انقرہ میں ملاقات کریں گے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی صدر اس دورے کے موقع پر ایک "اعلی سطح کے سیاسی اور اقتصادی وفد کی قیادت کریں گے"۔
ایرانی صدر کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے باعث اس سے قبل پہلے نومبر اور پھر رواں ماہ کے آغاز پر ، یعنی دو مرتبہ ملتوی ہو چکا ہے۔ وہ یہ دورہ ایک ایسے پر وقت کر رہے ہیں جب غزہ میں اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے مابین جاری جنگ کے خطے پر اثرات کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : کشیدگی ختم کرنا چاہتے ہیں ایران اور پاکستان
اس جنگ کا آغاز اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد کیا تھا، جس میں اے ایف پی کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 1,140 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری جانب حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق وہاں اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 25,490 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔
اس جنگ کے دوران ایران اسرائیل پر کڑی تنقید کرتا رہا ہے اور پیر کو رئیسی نے ایک بیان میں اس امر پر زور دیا کہ اسرائیل کو شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر جنرل کے قتل کی "قیمت یقینی طور پر ادا کرنی پڑے گی"۔
دوسری جانب آج امریکہ اور برطانیہ نے دوسری مرتبہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ یہ کارروائی غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کے جواب میں کی گئی۔ اس طرز کی پہلی کارروائی بھی اسی مہینے کی گئی تھی، جس کی مذمت کرتے ہوئے ترک صدر ایردوآن نے امریکہ اور برطانیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ بحیرہ احمر میں "خون ریزی" چاہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔