’جنسی انتخاب پر مبنی اسقاط حمل‘ کی وجہ مذہب نہیں بلکہ پدر سری ثقافت
جن خاندانوں میں پہلے سے ہی ایک بیٹی ہے، تقریباً ان کی ایک چوتھائی نے کہا کہ وہ گھر میں دوسری بیٹی کی بجائے اسقاط حمل کا انتخاب کریں گے۔
بلقان کی ریاستوں، خاص طور سے البانیا میں آج بھی لڑکی کی پیدائش کو ناپسند کیا جاتا ہے اور اکثر حمل کے ابتدائی عرصے میں جنین کی صنف کا پتا چل جانے کے بعد مؤنث جنین کا اسقاط کروا دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق سن دوہزار سے دوہزار بیس کے درمیان بلقان کی ریاست البانیا کا شمار دنیا کے ایسے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا جہاں لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش کی شرح میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یعنی البانیا میں اوسطاً 111 لڑکوں کی پیدائش کے مقابلے میں 100 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم البانیا میں گزشتہ چار سالوں کے دوران معاشرے میں تعلیم میں اضافے کے سبب لڑکے اور لڑکی کی پیدائش کی شرح میں پائے جانے والے واضح فرق میں کمی آئی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ UNFPA کے دفتر کی جانب سے البانیا کے لیے ایک آگاہی مہم بھی شامل ہے۔
البانیا میں اسقاط حمل سے متعلق قانون
البانیا میں حمل کے 12ویں ہفتے تک اسقاط حمل قانونی ہے تاہم بارہ ہفتوں کے بعد حمل کو ضائع کروانے کے لیے ڈاکٹروں کی خصوصی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی قبل از پیدائش صنفی اسکریننگ سے جنین کے لڑکا یا لڑکی ہونے کا پتا لگا کر اور اُس بنیاد پر اسقاط حمل کروانا غیر قانونی ہے۔
لیکن خون کے ایسے ٹیسٹ کی بڑھتی ہوئی دستیابی جس سے جنین کی جنس کا بہت پہلے یا حمل کے شروع کے مہینوں میں ہی علم ہونا، اسقاط حمل کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے اور اس ٹیسٹ کے رجحان کو روکنا مشکل ہے۔ البانیا کے دارالحکومت تیرانہ سے تعلق رکھنے والی ایک گائناکولوجسٹ یا زچہ بچہ کی ڈاکٹر روبینہ موسیو کہتی ہیں، ''یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اسقاط حمل کی وجہ یہ تھی کہ جنین ایک لڑکی تھی۔‘‘
البانیا میں حاملہ خواتین میں اس سادہ ٹیسٹ کی طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ ٹیسٹ حمل کے ساتویں ہفتے میں دستیاب ہوتا ہے اور 90 فیصد سے زیادہ درستی کے ساتھ بچے کی جنس بتا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکریننگ کے لیے ڈاکٹر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
پدرسری روایات کا غلبہ
عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پدرسری روایات مشرقی دنیا کا خاصہ ہے اور خاص طور سے اسے دنیا اسلام کی قدیم مگر جدید دور میں بھی مروجہ ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ بہت سے غیر مسلم معاشروں میں آج کے جدید دور میں بھی پدرسری روایات موجود ہیں اور ان کی بنیاد پر صنفی نا انصافیاں بہت سے معاشرتی مسائل کی وجہ بھی ہیں۔ بلقان کی ریاستوں میں یہ لڑکے اور لڑکی کی پیدائش کی شرح میں پائے جانے والے فرق سے بھی نمایاں ہے۔ البانیا اور بلقان کے دیگر ممالک میں غالب پدرانہ ثقافت نے بہت سے خاندانوں کو بیٹے کی پیدائش کی اُمیدیں لگائے رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
البانیا سے تعلق رکھنے والی لینا کو جب معلوم ہوا کہ وہ ایک اور لڑکی سے حاملہ ہے، تو اس نے حمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مشکل فیصلے کی وجہ لینا کے شوہر کی طرف سے لڑکے کی بجائے چوتھی بیٹی ہونے کے امکانات پر اُسے تشدد کا نشانہ بنی۔
اپنی شناخت چھپانے کے لیے تخلص استعمال کرنے والی لینا نے اے ایف پی کو بتایا، ''جب میرے شوہر کو معلوم ہوا کہ ہمارا چوتھا بچہ بھی لڑکی ہی ہے اور میں اسے لڑکا نہیں دے سکوں گی، تو وہ اتنا متشدد ہو گیا کہ اس نے تقریباً مجھے مار ڈالا۔‘‘ چالیس سالہ لینا نے کہا، ''میں اس بچے کو جنم نہ دینے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار تھی۔‘‘ لینا اسقاط حمل کروانے کے لیے جس طریقہ کار سے گزری اُس سے اسے جینیاتی گھاؤ لگا۔ اُسے جسمانی طور پر شدید نقصان پہنچا۔ تین سال پہلے انتہائی غیر صحت مند حالات میں لینا نے اسقاط حمل کروایا تھا۔
البانیا میں لڑکیوں کی تعداد کم کیوں؟
انتہائی معمولی اندازوں کے مطابق البانیا میں کئی سالوں کے جنسی انتخاب پر مبنی اسقاط حمل کے سبب ہزاروں لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا گیا۔ ایسا اسقاط حمل البانیا کے ان گھرانوں میں معمول کی بات بنتی جا رہی ہے جہاں لڑکوں کی پیدائش کی امید پوری ہوتی نظر نہ آنے پر لڑکیوں کو قبل از پیدائش ہی مار دیا جاتا ہے۔
البانیا میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی نمائندہ مانویلا بیلو نے اے ایف پی کو بتایا، ''جب والدین کو معلوم ہوتا ہے کہ جنین ایک لڑکی ہے، تو وہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسے رکھنے کی بجائے اسقاط حمل کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''پچھلے دس سالوں میں البانیا میں 21,000 لڑکیاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کی طرف سے مرتب کردہ تحقیق کے مطابق، جن خاندانوں میں پہلے سے ہی ایک بیٹی ہے، تقریباً ان کی ایک چوتھائی نے کہا کہ وہ گھر میں دوسری بیٹی کی بجائے اسقاط حمل کا انتخاب کریں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔