کیا غزہ کا بحران بائیڈن کے صدارتی امکانا ت کو متاثر کرسکتا ہے؟
مشیگن میں عرب نژاد امریکی کمیونٹی کی ایک مہم 'لیسن ٹو مشیگن' نے موجودہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اور بائیڈن ایک بار پھر آنے سامنے ہوں گے۔ البتہ مشیگن کی عرب امریکی کمیونٹی نے غزہ جنگ سے متعلق صدر جو بائیڈن کی پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز ریاست مشیگن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی جبکہ سابق صدر ٹرمپ ساؤتھ کیرولائنا میں ریپبلکن پرائمری جیتنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح اب اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ سن 2020 کی طرح ہی اس برس بھی نومبر کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن اور ڈونلڈ ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔
تاہم مشیگن میں عرب نژاد امریکی کمیونٹی کی ایک مہم 'لیسن ٹو مشیگن' نے موجودہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے اور غزہ کی جنگ سے متعلق ان کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج کہا ہے کہ وہ ان کے لیے اب ووٹ دینے کے ''پابند نہیں'' ہیں۔ واضح رہے کہ یہ عرب برادری امریکہ میں سب سے بڑی عرب-امریکی برادریوں میں سے ایک ہے۔
'لیسن ٹو مشیگن' نامی مہم کی تشہیر فلسطینی نژاد امریکی کانگریس کی رکن خاتون راشدہ طلیب نے وسیع پیمانے پر شروع کر رکھی ہے، جس کا مقصد بائیڈن انتظامیہ کو ایک پیغام دینا ہے۔ اس مہم کے حامی دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر صدر جو بائیڈن جنگ سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے، تو وہ نومبر کے صدارتی انتخابات کے دوران سوئنگ اسٹیٹ میں بائیڈن کے لیے ووٹ نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے سن 2020 کے انتخابات میں مشیگن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف 2.8 فیصد پوائنٹس سے شکست دی تھی۔ طلیب نے کہا، ''مشیگن میں 74 فیصد ڈیموکریٹس جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، پھر بھی صدر جو بائیڈن ہماری بات نہیں سن رہے ہیں، تو ہم اپنی جمہوریت کو یہ کہنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ 'سنو۔۔۔۔ مشیگن کی سنو۔''
پرائمری پولنگ کے فوری بعد اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جس گروہ نے ووٹ کے لیے ''پابند نہ ہونے'' کی بات کہی ہے، اس کے تقریباً 19,000 بیلٹ تھے۔ کچھ عرب نژاد امریکی ووٹروں نے بائیڈن کی جانب سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت پر مایوسی کا حوالہ دیتے ہوئے، خبر رساں ایجنسیوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ بطور احتجاج ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔
ادھر ریپبلکن پرائمری انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا تسلط برقرار ہے اور انہیں بیشتر ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ہفتے کے روز انہوں نے اپنی سرکردہ ریپبلکن امیدوار نکی ہیلی کو ان کی آبائی ریاست جنوبی کیرولینا میں شکست دی تھی۔البتہ ہیلی نے اعتدال پسند اور کالج کے تعلیم یافتہ ووٹرز کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا، جہاں ٹرمپ کو ووٹ جمع کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔
ہیلی کی انتخابی مہم کی ترجمان اولیویا پیریز کیوباس نے کہا کہ مشیگن کے نتائج ''نومبر میں ٹرمپ کے لیے ایک انتباہی اشارہ'' ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اسے ایک اور انتباہی علامت سمجھنا چاہیے کہ مشیگن میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ پورے ملک میں جاری رہے گا۔ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ ٹکٹ کی دوڑ میں سرفہرست رہیں گے، ریپبلکن سوشلسٹ بائیں بازو سے ہارتے رہیں گے۔ ہمارے بچے اس سے بہتر کے مستحق ہیں۔''
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔