جرمنی میں بھنگ کا قانونی استعمال، ملک بھر میں جشن
جرمن پولیس یونین کے ڈپٹی فیڈرل چیئرمین الیگزانڈر پوآٹس نے کہا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد ممکن بنانے میں مشکلات درپیش رہیں گی۔
ایک نئے قانون کے تحت جرمنی میں بالغ افراد اب اپنے ذاتی استعمال کے لیے 25 گرام بھنگ جیب میں ڈال کر گھوم سکتے ہیں جبکہ گھر میں اس نشہ آواد مواد کا 50 گرام تک ذخیرہ کر سکتے ہیں۔جرمنی میں بھنگ کے ذاتی استعمال کو غیر مجرمانہ عمل قرار دیے جانے کے ایک نئے قانون کے بعد بالخصوص دارالحکومت برلن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں جشن منایا۔ تاریخی برانڈن برگ گیٹ پر جمع ہوئے لوگوں نے اس نشہ آور مواد کے ساتھ اسموکنگ کی اور کہا کہ وہ خود کو کچھ زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔
یکم اپریل رات بارہ بجے اس قانون پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اس قانون کے تحت اب لوگ پچیس گرام کینبیس نہ صرف اپنی جیب میں ڈال کر گھوم سکیں گے بلکہ بھنگ کے تین پودے اپنے اپنے گھروں میں اگا بھی سکیں گے۔
یہ نیا قانون کن باتوں کی اجازت دیتا ہے؟
اٹھارہ سال سے کم عمر افراد اس نشہ آور مواد کو استمعال نہیں کر سکیں گے۔ ان کے لیے یہ مواد ممنوعہ ہی رہے گا۔بھنگ کا عوامی مقامات پر استعمال قانونی ہو گا تاہم بچوں اور کھیلوں کے مقامات کے ارد گرد اس کو یوز کرنے پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پیدل چلنے والے زونز میں صبح سات تا شب آٹھ بجے تک بھنگ کا استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
جرمنی میں بھنگ کے خصوصی کلب بنائے جائیں گے۔ ہر ایک کلب کے پانچ سو تک ممبران ہوں گے، جو اس کلب سے بھنگ خرید سکیں گے۔ ان کلبوں کا افتتاح یکم جولائی سے ہو گا۔
ان قوانین کے نتیجے میں جرمنی یورپ کے ایسے لبرل ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جہاں بھنگ کا استعمال عام ہے۔ جرمنی البتہ ایسے قوانین متعارف کرانے والا پہلا یورپی ملک نہیں ہے۔ قبل ازیں پرتگال، اسپین، سوئٹزرلینڈ، چیک ری پبلک، بیلجیم اور نیدرلینڈز بھی کینیبس کے حوالے سے قوانین منظور کر چکے ہیں۔
تحفظات اور تنقید
جرمنی میں بھنگ سے متعلق ان نئے قوانین پر بالخصوص ہیلتھ پروفیشنلز نے بہت زیادہ تنقید کی ہے۔ ان کے مطابق بالخصوص نوجوانوں میں اس نشہ آور مواد کے استعمال سے جرمن شعبہ صحت پر بوجھ پڑے گا۔ تاہم ملکی ہیلتھ منسٹر کارل لاؤٹرباخ کا کہنا ہے کہ ملک کی پرانی ڈرگ پالیسی ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ اس نئے قانون کے حامی ہیں۔
ادھر جرمن پولیس یونین (GdP) نے اس نئے قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس ادارے کے ڈپٹی فیڈرل چیئرمین الیگزانڈر پوآٹس نے کہا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد ممکن بنانے میں مشکلات درپیش رہیں گے۔
تاہم جسٹس منسٹر مارکو بوشمان کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے عدلیہ اور پولیس کا ورک لوڈ کم ہو جائے گا۔ انہوں نے ایک ریڈیو پرگرام میں کہا کہ اس تبدیلی سے بے شک فوری طور پر پولیس کا ورک لوڈ بڑھ جائے گا لیکن طویل المدتی بنیادوں پر عدلیہ اور پولیس کو راحت ہی ملے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔