کیا بالی وڈ بھارت اور پاکستان کو قریب لاسکتا ہے؟

بالی وڈ کی فلموں کی پاکستان میں پسندیدگی کی ایک بڑی وجہ ان فلموں کی زبان ہے، جو عام طور پر ہندی ہوتی ہے۔ کم از کم بولنے کی حد تک ہندی اردو سے ملتی جلتی ہے۔

کیا بالی وڈ بھارت اور پاکستان کو قریب لاسکتا ہے؟
کیا بالی وڈ بھارت اور پاکستان کو قریب لاسکتا ہے؟
user

Dw

دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تلخ سیاسی رقابت کے باوجود بھارتی فلمی ستاروں، بالخصوص بالی وڈ کے اداکاروں، کے مداحوں کی پاکستان میں بہت بڑی تعداد ہے۔ لیکن اس مقبولیت کا سبب کیا ہے؟پاکستان میں فلموں کو نمائش سے قبل صوبائی بورڈز کے ذریعہ منظوری حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہ بورڈز ملک کے سماجی اور ثقافتی اقدار کے خلاف سمجھی جانے والی کسی بھی پہلو کو سینسر کرتے ہیں۔

دوسری طرف سن 2019 کے بعد سے بھارت کی ہندی فلم انڈسٹری، بالی وڈ، کے ذریعہ تیار کی گئی فلموں کو پاکستان کے سنیما گھروں میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ جنوری میں اداکار شاہ رخ خان کی بلاک بسٹر فلم "پٹھان" کراچی کے متمول ڈی ایچ اے علاقے میں عوامی طور پر دکھائی گئی تو صوبہ سندھ، جہاں کراچی واقع ہے، کے سینسر بورڈ، نے اس کی نمائش روک دی۔


پاکستان اور اس کے پڑوسی بھارت کے درمیان، کشمیر کے تنازع کی وجہ سے، تعلقات شاذ و نادر ہی خوشگوار رہے ہیں۔ اس کے باوجود فلموں سے دلچسپی رکھنے والے بہت سے پاکستانی بالی وڈ اور اس کے ستاروں کے پرجوش مداح ہیں۔ "بالی وڈ کے بادشاہ" کے نام سے معروف شاہ رخ خان، جن کی تازہ ترین فلم "ڈنکی" اس ماہ کے اوائل میں سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی، کے علاوہ بالی وڈ کے دیگر اداکاروں مثلاً عامر خان، دیپیکا پاڈوکون اور رنبیر وغیرہ کے پاکستان میں مداحوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

پچھلے چند برسوں میں جنوبی بھارت میں بنائی جانے والی یا جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے ہدایت کاروں کی فلمیں بھی اپنے ایکشن اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر مبنی کہانیوں کی وجہ سے مقبول ہوئی ہیں۔ لیکن بالی وڈ کی فلموں کی پسندیدگی کی ایک بڑی وجہ ان فلموں کی زبان ہے، جو عام طور پر ہندی ہوتی ہے۔ کم از کم بولنے کی حد تک ہندی اردو سے ملتی جلتی ہے، جو مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں بولی جانے والی زبان ہے۔ اس کے علاوہ بالی وڈ میں کام کرنے والے کچھ فنکار اور تکنیکی ماہرین مسلم پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔


بالی وڈ: مارکیٹنگ یا مواد

سرکاری سطح پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے باوجود، خا ص طورپر جب بات فلموں اور موسیقی کی ہو،دونوں ملکوں کے درمیان یکساں ثقافتی پہلوبرقرار ہیں۔ پاکستانی اداکار محب مرزا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" میں نے ایک دن ایک ٹی وی میزبان کو اس موضوع پر بات کرتے ہوئے سنا، جن کا خیال تھا کہ 1947سے قبل غیر منقسم ہندوستان میں ہم ایسی ہی فلمیں بناتے تھے۔"

مرزا کا کہنا تھاکہ،"ہمارے ہیروز نے بھی وادیوں اور درختوں کے گرد گیت گائے ہیں، لیکن میرے خیال میں اثر و رسوخ ایک الگ موضوع ہے۔ بالی وڈ خود بھی اصلی نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے دوسرے ملکوں سے کافی متاثر ہے۔" محب مرزا کا مزید کہنا تھا کہ "ہمارے ناظرین کی بھارتی فلمیں دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی چیزوں کی 'مارکیٹنگ' بہت اچھی طرح کرتے ہیں۔ وہاں، بھارت میں، جو کچھ بھی ہورہا ہو ہمیں اس کی خبریں ضرور ملیں گی۔"


لیکن صحافی غازی صلاح الدین محب مرزا کے ان خیالات سے متفق نہیں ہیں۔ صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"بالی وڈ کا پاکستان پر کافی اثر ہے کیونکہ اس کی فلمیں اپنے میعار اور مواد کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر دیکھی جاتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں اس کی کمی ہے۔" انہوں نے کہا کہ،"انہوں (بالی وڈ) نے تکنیکی ترقی کو بھی بخوبی اپنایا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ایک بڑی بین الاقوامی مارکیٹ ہے، جس کے وجہ سے وہ اپنے اسکرین پراجیکٹوں پر تجربہ کرنے اور بہت زیادہ رقم خرچ کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بھارت کی اقتصادی کامیابی کا بھی اس میں ایک کردار ہے۔"

فلم ساز شعیب سلطان، جن کی ہدایت کاری میں پہلی فلم 'گنجل ' 15 دسمبر کو سنیما گھر میں ریلیز ہوئی تھی، کہتے ہیں کہ گانے او ررقص بھارتی اور پاکستانی فلموں کا اہم جز ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "یہ ایک بہت بڑی صنعت ہے۔ ہمارے ناظرین اسے اس لیے دیکھتے ہیں کہ کیونکہ اس میں تفریح ہوتی ہے اور اس میں حقیقت کو اس سے بہت بڑا کرکے دکھایا جاتا ہے۔"


یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان میں اس کی فلم انڈسٹری بڑی نہیں ہے۔ ملک میں فلم ڈسٹری بیوٹرز اور سنیما ہال مالکان اب بالعموم ہالی وڈ کے بڑے اسٹوڈیوز کی ریلیز کی گئی فلموں پر انحصار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں۔

باکس آفس پر پاکستانی فلموں کی کمی

فلموں کے تقسیم کار اور نمائش کار ندیم مانڈوی والا کا خیال ہے، "جب تک ہم پاکستان میں فلمیں بنانا شروع نہیں کریں گے، لوگ بالی وڈ کی فلمیں دیکھتے رہیں گے۔" انہوں نے کہا کہ "دنیا میں صرف یہ دو ممالک ہیں جو گانے اور رقص اور لباس اور زبان کے لحاظ سے ایک ہی طرح کی فلمیں بناتے ہیں۔ وہ اسے ہندی زبان کہتے ہیں اور ہم اسے اردو کہتے ہیں۔ وہ ہندی میں 80فیصد اردو الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔"


صلاح الدین کا خیال ہے کہ " دونوں طرف کے امن کارکن سیاسی میدان میں درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بھارتی اور پاکستانی بہت زیادہ سفرکرتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں آباد ہے جس کی وجہ سے وہ جنوبی ایشیا سے باہر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔"

پاکستان میں بھارتی فلموں کی اہمیت

فلموں کے تقسیم کار ندیم مانڈی والا کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ بھارت کے بارے میں اس کی فلموں کی نمائش کی وجہ سے بہت کچھ جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "پچھلے چالیس سالوں سے پاکستانی عوام بھارتی مواد دیکھ رہے ہیں۔" لیکن 2019 میں جب سے پاکستان نے بھارتی فلموں پر پابندی عائد کی، ملک میں نمائش کنندگان اور تقسیم کاروں کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔


مانڈی والا بتاتے ہیں،"ہم (بطور نمائش کنندگان) اپنی حکومت کو بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: یا تو بھارتی مواد کی اجازت دیں یا سال میں کم از کم ایک سو سے ڈیڑھ سو فلمیں بنائیں، جس سے پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں مدد ملے گی۔" یعنی سیاسی اور حکومتی رہنما ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑے اختلافات کو دور کرنے کے لیے کام کرتے ر ہیں لیکن ان کے عوا م اپنی ثقافتی یکسانیت پر توجہ مرکوز کرنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔