روس میں ناوالنی کا سوگ منانے والے 400 سے زائد افراد گرفتار

مغرب نے ناوالنی کی موت کے لیے روسی قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم ماسکو اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے۔

روس میں ناوالنی کا سوگ منانے والے  400 سے زائد افراد گرفتار
روس میں ناوالنی کا سوگ منانے والے 400 سے زائد افراد گرفتار
user

Dw

سینتالیس سالہ روسی اپوزیشن رہنما جمعہ کے روز جیل میں چہل قدمی کے دوران بے ہوش ہونے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ مغرب نے ناوالنی کے قتل کے لیے صدر پوتن اور ان کے حامیوں کو زمہ دار ٹھہرایا ہے۔روس میں حکام نےاپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کی یاد میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے چار سو سے زائد افراد کوگرفتار کر لیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ او وی ڈی۔ انفو کے مطابق ناوالنی کے حامیوں کو ماسکو، سینٹ پیٹرزبرگ، اور بیلگوروڈ سمیت 36 شہروں میں حراست میں لیا گیا۔ گرفتار کیے گئے افراد الیکسی نوالنی کی زیر حراست اچانک موت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

روسی اپوزیشن رہنما کی موت کی تصدیق ان کے اتحادیوں نے کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ روسی حکومت ناوالنی کی لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار کر رہی ہے۔


امریکی نژاد برطانوی بزنس مین اور ہرمیٹیج کیپٹل مینجمنٹ کے شریک بانی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے سخت ناقد بل براؤڈر نے ڈی ڈبلیو سے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اس پیشرفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ''پوٹن نے الیکسی ناوالنی کو مارا اور اس قتل کا مقصد روس میں ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوچنے والے کسی بھی شخص کو پیغام دینا ہے کہ اگر آپ ولادیمیر پوٹن کو چیلنج کرتے ہیں تو آپ کو مار دیا جائے گا۔‘‘ براؤڈر نے کہا کہ بظاہر ناوالنی کو نشانہ بنانا ''روسی عوام کو مکمل طور پر دباؤ میں لانے کے لیے کیا گیا۔‘‘

ناوالنی کی موت کے حالات تاحال نامعلوم

روسی ایوان صدر کریملن نے کہا ہے کہ جیل میں ناوالنی کی موت کی وجہ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ جیل حکام نے بتایا کہ 47 سالہ ناوالنی جمعہ کو آرکٹک پینل کالونی جیل میں چہل قدمی کے دوران بے ہوش ہو گئے اور بعد میں ان کا انتقال ہو گیا۔


مغرب نے ناوالنی کی موت کے لیے روسی قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تاہم ماسکو اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کے مطابق،''فرانزک تحقیقات کے ابھی تک کوئی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں لیکن مغرب پہلے ہی اپنے نتائج اخذ کر رہا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔