بپی لہری کو بالی وڈ کے 'ڈِسکو کِنگ'کیوں کہا جاتا تھا

بالی وڈ میں 'ڈسکو کنگ' کے نام سے معروف69 سالہ گلوکار اور موسیقار بپّی لہری منگل کی رات میں چل بسے۔ اسّی اور نوے کے عشرے میں ڈسکو گیتوں کو مقبول بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

فائل تصویر یو این آئی
فائل تصویر یو این آئی
user

Dw

بپی لہری کی وفات پر ان کی اہلیہ چترانی لہری، بچے بپّا لہری اور ریما لہری کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ہمارے لیے سخت مایوسی کی گھڑی ہے اور ہم تمام لوگوں سے محبت اور دعاوں کے طلب گار ہیں۔ موسیقار کی آخری رسومات آج جمعرات کو ادا کی جائیں گی۔

بپی لہری تقریباً ایک ماہ تک ممبئی کے ایک ہسپتال میں علاج کے بعد صحت یاب ہوکر 15فروری کو گھر آئے تھے لیکن اچانک طبعیت بگڑ گئی اور انہیں دوبارہ ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں منگل کی رات کو انہوں نے آخری سانس لی۔ گزشتہ برس وہ کورونا سے بھی متاثر ہو گئے تھے۔

بپی لہری کا کیریئر

زرق برق لباس، سونے کے زیورات اور آنکھوں پر خوبصورت چشمہ بپی لہری کا ٹریڈ مارک تھا۔ انہوں نے متعدد انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ چیزیں ان کے لیے خوش قسمتی لاتی ہیں۔


بپی لہری سن 80 اور سن 90 کی دہائی میں 'نمک حلال'،'ڈسکو ڈانسر' اور ڈانس ڈانس جیسی فلموں میں ڈسکو گانوں کی وجہ سے مقبول ہوئے اور اسی کے بعد سے انہیں ’ڈسکو کنگ‘ کہا جانے لگا ۔ انہوں نے 700سے زائد فلموں میں موسیقی دی۔ انہوں نے بہت سارے گانے بھی گائے۔

وہ مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی میں 1952میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آلوکیش لہری تھا۔ ان کے والد اپریش لہری اور والدہ بنساری لہری بنگلہ زبان کے گلوکار اور موسیقار تھے۔ موسیقی سے ان کا تعلق صرف تین برس کی عمر میں ہی قائم ہوگیا۔ تاہم بالی وڈ میں موسیقی کا سفر 1973میں شروع ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گریمی ایوارڈ حاصل کرنے کی ان کی خواہش گوکہ پوری نہیں ہوسکی تاہم وہ گریمی ایوارڈ کی جیوری کے رکن ضرور بنائے گئے۔


سیاست سے رغبت

بپی لہری نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی۔ سن 2014میں جب بھارت میں نریندر مودی کی لہر تھی، وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے۔ سن 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے انہیں ہگلی ضلع کے سری رام پور حلقہ سے امیدوار بنایا تھا لیکن وہ الیکشن ہار گئے۔

انہوں نے سن 2004 میں کانگریس کے انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ بی جے پی میں شمولیت کے بعد بپی لہری نے کہا تھا کہ دس برس قبل کانگریس کی لہر تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔