البرٹ آئن سٹائن کی مشہور ترین تصویر کے پیچھے چُھپی کہانی
یہ ستر برس پہلے کی بات ہے، جب مشہور زمانہ ماہر طبعیات نے تنگ کر دینے والے رپورٹروں کو زبان نکال کر دکھائی۔ اس تصویر نے انہیں ایک آئیکون میں بدل دیا لیکن اس تصویر کے پیچھے چُھپی کہانی کیا ہے؟
یہ 14 مارچ 1951ء کا دن تھا، جب البرٹ آئن سٹائن 72 برس کے ہو چکے تھے۔ مشہور طبعیات دان، جو جرمنی کے شہر اُلم میں پیدا ہوئے، پہلے ہی کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم تھے۔ اس وقت وہ نیو جرسی میں پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی میں کام کر رہے تھے۔ ریسرچ سینٹر میں ہی ان کے اعزاز میں سالگرہ کی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔
وہاں ہال کے باہر پاپرازی بھی چھپے ہوئے تھے تاکہ وہ باہر نکلیں اور وہ عالمی سیاسی صورتحال سے متعلق دنیا کے مشہور سائنسدان کی رائے جان سکیں۔ اسی دوران اُن کی یہ تصویر لی گئی، جو بعدازاں دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔
آئن سٹائن میڈیا کی کوریج کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں یہ بھی اچھا نہیں لگا کہ اچانک وہاں رپورٹر بھی نمودار ہو چکے تھے۔ وہ ایک لیموزین کی بیک سیٹ میں پھنس چکے تھے۔ ان کی ایک جانب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر فرانک آیڈیلوٹ اور دوسری جانب سابق ڈائریکٹر کی اہلیہ میری بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ کیمروں کے چمکتے بلبوں سے فرار حاصل کرنے سے قاصر تھے۔
کہا جاتا ہے کہ وہ نامہ نگاروں پر متعدد مرتبہ چیخے کہ 'اب بہت ہو گیا‘۔ اس دوران ان میں سے ایک رپورٹر نے اونچی آواز میں کہا، '' ہائے پروفیسر! سالگرہ کی تصویر کے لیے مسکرائیں، پلیز۔‘‘
البرٹ آئن سٹائن اس وقت جھنجھلاہٹ کا شکار تھے اور اس غیر روایتی آزاد روح کے حامل سائنسدان نے ان رپورٹروں کو زبان نکال کر دکھا دی۔ یہ ایک لمحہ تھا، جسے فوٹوگرافر آرتھر ساس نے اپنے کیمرے میں قید کر لیا۔ یہ تصویر تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گئی اور اس طرح ایک مشہور تصویر بن گئی۔
ایک مشہور سنیپ شاٹ
پراگندہ بالوں والا غائب دماغ پروفیسر، جو اکثر موزے پہننا بھول جاتا تھا، اصل میں دنیا کا ایک ذہین ترین شخص تھا۔ ان کے نظریہ اضافیت کو اب بھی دنیا کے فقط ذہین دماغ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اُس وقت بھی ان کو ایک افسانوی شخصیت ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس ''گستاخانہ اسنیپ شاٹ‘‘ نے انہیں ایک پاپ آئیکون کا درجہ دے دیا تھا۔
تاہم یہ فوٹوگرافر نہیں تھا، جس نے اس تصویر کو دنیا بھر میں شہرت فراہم کی بلکہ خود آئن اسٹائن نے ایسا کیا تھا۔ آئن سٹائن نے اس تصویر کے متعدد پرنٹس کا آرڈر دیا اور آیڈیلوٹ جوڑے کو تصویر میں سے کاٹ دیا۔ آئن سٹائن نے درجنوں تصاویر اپنے ساتھیوں، دوستوں اور جاننے والوں کو بھیجیں۔ انہوں نے اپنی دوست جوہانا فانٹوا کو خط میں یہ تصویر بھیجتے ہوئے لکھا،'' یہ پھیلی ہوئی زبان میرے سیاسی خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔‘‘
2009 میں اس تصویر کی ایک اصل دستخط شدہ کاپی نیلامی میں تقریبا 74 ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی۔ یہ البرٹ آئن سٹائن کی اب تک کی مہنگی ترین تصویر ہے۔
انسانی حماقت کے حوالے سے آئن سٹائن کے بیانات
آئن سٹائن ایک یہودی تھے اور نازی جرمنی کے مظالم سے فرار ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔ امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی کی جانب سے انہیں 'غیر امریکی‘ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کیوں کہ وہ کمیونسٹوں اور سرد جنگ کے بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ آئن سٹائن کے پاس انسانی حماقتوں کے بارے میں کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ ان کا جرمن زبان کا ایک محاورہ ہے، ''دو چیزیں لامحدود ہیں، کائنات اور انسانی حماقت۔ لیکن مجھے ابھی تک کائنات کے بارے میں مکمل یقین نہیں ہے۔‘‘ (سوزانے کورڈز، جرمن زبان سے ترجمہ، امتیاز احمد)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔