سعودی عرب کی فلمی صنعت: چکا چوند اور سنسر شپ کے بیچ
سعودی معاشرے میں سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کا عمل ثقافتی انقلاب معلوم ہوتا ہے تاہم اس کا اصل مقصد سعودی عرب کے روڈ میپ ‘وژن 2030 ‘کو کامیاب بنانا ہے اوراس سے ملازمتوں کے نئےمواقع بھی پیدا ہوں گے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2016 ء میں 'وژن 2030 ‘کا روڈ میپ پیش کیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ سعود ی معاشرے میں تفریحی شعبے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس اقدام سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ ان کا 'وژن‘ دراصل اپنے قدامت پسند معاشرے کی سخت اقدار اور ضوابط میں نرمی اور لچک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی پرنس سلمان کی حکمت عملی یہ تھی کہ سعودی فلمی صنعت کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کی جائے اور اسے ایک وسیع تر کاروباری شعبہ بنایا جائے۔ ان کی منصوبہ بندی میں فلموں کے لیے مقامی مواد تیار کروانا شامل ہے جس کے لیے 30 ہزار سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔
عملی اقدامات
مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے ریاض حکومت نے ' جنرل اتھارٹی فار انٹر ٹینمنٹ‘ GAE اور ' پبلک انوسٹمنٹ فنڈ‘ PIF کے علاوہ 'سعودی فلم کونسل‘ SFC اور ' جنرل کمیشن فار آڈیو ویژول میڈیا‘ GCAM جیسے ادارے قائم کیے۔
سعودی عرب میں اب فلمیں تیز رفتاری سے تیار کی جا سکیں گی اور با آسانی برآمد کی جا سکیں۔ یہ سب کچھ ایک 'نئے سعودی عرب‘ میں ہو گا۔ سینٹر فار اپلائیڈ ریسرچ ان پارٹنر شپ ود اوریئنٹ‘ کے ایک محقق سباستیان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں کہا،''مجھے یقین ہے کہ ولی عہد شہزادہ قومی شناخت کا ایک نیا احساس پیدا کرنے کی اپنی حکمت عملی کے حصے کے طور پر قومی فلموں پر زور دے رہے ہیں، جسے وہ زیادہ جدید سمجھتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کی سنیما انڈسٹری کو چلانے والی اتھارٹی GCAM نے امید ظاہر کی ہے کہ 2030 ء تک سعودی عرب میں 350 سنیما گھر اور ڈھائی ہزار سنیما اسکرینز دستیاب ہوں گی اور سعودی فلمی صنعت کی مالیت ایک بلین ڈالر یا 8 لاکھ 36 ہزار یورو ہو گی۔ ریاض حکومت اپنے 'انٹرٹینمنٹ سیکٹر‘ یا تفریحی شعبے کے بجٹ کو دو گنا کر دے گی۔ یعنی سعودی عرب کی 2018/2019 کی مجموعی قومی پیداوار کے 3 فیصد سے بڑھا کر اسے 2030ء تک 'جی ڈی پی‘ کا 6 فیصد کر دے گی۔
مقامی بزنس کے لیے مزید کشش
سعودی عرب کے اندر فلم سازی کا مطلب ہے امتیازی طور پر ' سعودی فلمیں‘ بنانا۔ یعنی 2018 ء سے پہلے جن موضوعات پر فلمیں بنتی تھیں ان موضوعات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان فلموں میں سے چند نے عالمی سطح پر بہت شہرت حاصل کی تھی۔ اب سعودی عرب کے جدید فلم ساز اپنی فلموں کے موضوعات برآمد کر رہے ہیں۔
اب کی فلمیں جذبات سے بھر پور اور کبھی کبھی روشن خیال موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ عشق و محبت، حسد اور حادثات کی اثر انگیزی وغیرہ اور اس طرح یہ مقاصد کو پورا کر رہی ہیں۔ جیسے کہ سعودی فلم ،' لاسٹ ویزٹ‘ جس کے ہدایت کار عبدالمحسن الدہان ہیں، 'وجدہ‘ جس کی ڈائرکٹر اور اسکرین رائیٹر ھیفا ء المنصور تھیں یا فلم ' When Barakah Barakah ‘ جس کے ہدایتکار محمود صباغ تھے۔
سخت سنسرشپ
سعودی فلم انڈسٹری کو جدید طرز پر تشکیل دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس عرب قدامت پرست بادشاہت میں فلم انڈسٹری سخت سنسرشپ کا شکار ہے اور اس کی مالی اعانت بھی کافی حد تک محدود ہے۔ سعودی عرب میں موجود 'برٹش کونسل‘ کی ایک رپورٹ کے ایک مطابق اس بارے میں جن افراد سے سوال کیا گیا ان میں سے 43 فیصد جواب دہندگان نے تجارتی رقوم یا مالی اعانت کی کمی کو فلمسازی کی صنعت میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا کیونکہ فلمی صنعت کو تین حکومتی اداروں سے مالی اور فنکارانہ مدد ملتی ہے۔ 'کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچرز‘ ایک نیا فلم کمیشن ہے جو سعودی ثقافتی امور کی وزارت اور 'بحیرہ احمر فلم فیسٹیول‘ کا نگران ادارہ ہے۔
فلم بطور بہترین اسٹیج
ولی عہد شہزادہ سلمان نے ایک ٹی وی سیریز کی تیاری میں 64 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ کمرشل کمپنیاں جیسے کہ نیٹ فلکس بھی سعودی عرب کے اسٹوڈیو' ٹیلفاز 11‘ کے ساتھ 'ملٹی پکچر پارٹنر شپ‘ کا آغاز کر رہا ہے۔ نیٹ فلکس کے مواد کے حصول کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ترکی نوحہ التیب کے مطابق،''ہم سعودی مواد سے اپنی لائبریری بڑھا رہے ہیں، مستند اور دلچسپ کہانیاں پیش کرنے کے لیے اپنے تخلیق کاروں کی شمولیت سے ایسی مواد پیش کرین گے، جس کی گونج سعودی عرب اور دنیا بھر میں سنائی دے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔