کان فلمی میلہ: ٹرانس جینڈر سے متعلق پاکستانی فلم انعام کی حقدار
اس فلم میں ایک ٹرانس جینڈر ڈانسر کی دلیرانہ تصویر پیش کی گئی ہے۔ کان فلمی میلے میں ''جوائے لینڈ‘‘ نے بہترین ایل جی بی ٹی یا ہم جنس پرستوں کے موضوع پرمبنی فلم کا ’کوئیر پالم‘ انعام جیت لیا ہے۔
پاکستانی ہدایت کار صائم صادق کی یہ فلم جنسی انقلاب کی کہانی ہے اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ ایک پدرانہ خاندان کے سب سے چھوٹے بیٹے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک بچہ پیدا کر کے اپنے خاندان کو بڑھائے۔ لیکن وہ اس کے بجائے ایک ڈانس تھیٹر گروپ میں شامل ہو جاتا ہے اور اس ڈانس تھیٹر کی ٹرانس ویمن ڈائریکٹر کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
یہ کان میلے میں پہلی پاکستانی مسابقتی فلم ہے۔ اس فلم نے مخصوص موضوعات کے مقابلے میں بھی جیوری پرائز جیتا۔ انعامات کی اس کٹیگری میں نوجوان اختراعی سنیما ٹیلنٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ایک طاقت ور فلم
فرانسیسی ہدایت کار کیتھرین کورسینی کا کہنا ہے، ''یہ ایک بہت ہی طاقتور فلم ہے، جو ہر اس چیز کی نمائندگی کرتی ہے جس کے لیے ہم آواز اٹھاتےہیں۔‘‘ کورسینی نےخود پچھلے سال ''لا فریکچر‘‘ نامی فلم میں اپنے کردار پر یہ ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ اس فلم میں فرانس میں ''یلو ویسٹ‘‘ تحریک کے پس منظر میں ایک ہم جنس پرست جوڑے کے تعلقات کو نمایاں کیا گیا تھا۔
کورسینی کے مطابق فلم 'جوائے لینڈ‘ کی کہانی پوری دنیا میں گونجے گی۔ ''اس میں مضبوط کردار ہیں جو پیچیدہ بھی ہیں اور حقیقی بھی۔ کچھ بھی توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا گیا۔ ہم اس فلم سے بہت متاثر ہوئے۔‘‘کان میلے میں اس فلم کو افتتاحی رات کے موقعے پر حاضرین نےکھڑے ہو کر داد دی۔
پاکستانی قانون حیرت کا باعث
کان میلے میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ جاننا حیران کن تھا کہ پاکستان کا شمار ان اولین ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواجہ سراؤں یا ٹرانس جینڈرز کے حق میں قانون سازی کی گئی ہے۔
سن 2009 میں، پاکستان نے قانونی طور پر تیسری جنس کو تسلیم کیا اور2018 میں پہلا ٹرانس جینڈر شناختی کارڈ بھی جاری کیا گیا۔
فلم ڈائریکٹر صائم صادق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آپ کو یقیناً ایک طرف ایک خاص کمیونٹی کے خلاف تعصب اور تشدد ملتا ہےلیکن آپ کو یہ انتہائی ترقی پسند قانون بھی ملتا ہے جو بنیادی طور پر ہر ایک کو اپنی جنس کی شناخت کرنے کی اجازت دیتا ہے اور تیسری جنس کی شناخت بھی کرتا ہے۔
پاکستان میں کچھ ٹرانس جینڈرز کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اب بھی اس کمیونٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ملک میں زیاد تر خواجہ سرا اب بھی بھیک مانگنے، مختلف محفلوں میں رقص کرنے یا بطور سیکس ورکرز کام کرنے پر مجبور ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔